728x90 AdSpace

  • Latest News

    Monday 29 February 2016

    سعودی عرب میں اندرونِ خانہ کیا ہورہا ہے؟؟


    جنگ کے بیان پر الگ الگ ہیں عوام اور سلطان وقتا فوقتا سعودی وزیرخارجہ کے ہیجان انگیزبیانات اور اسی طرح وزارت دفاع کے ترجمان بریگیڈیٹر احمد عسیری کے بیانات کو عرب خطہ اور ممکنہ طور پرپوری دنیا یہ تاثر لے رہی ہو کہ یہ بیانات سعودی معاشرے کی عکاسی کررہے ہیں۔اگر کوئی سعودی ذمہ داروں کے بیانات سے یہ سمجھ رہا ہے کہ سعودی رائے عامہ اپنے ذمہ داروں کی جنگوں کی زبان اور پالیسیوں کی حامی ہے تو غلطی کررہاہے ۔سعودی رائے عامہ کیا سوچ رہی ہے ؟کیا وہ اپنے ملکی ذمہ داروں کی جارحانہ پالیسیوں کی حامی ہے ؟یہ بات ہمیں بین الاقوامی زرائع ابلاغ اور خود سعودی عرب کے ماہرین و دانشورں سے بالمشافہ ملاقات کے بعد ہی معلوم ہوجاتی ہے کہ معاملہ بالکل برعکس ہے ۔

    واشنگٹن پوسٹ میں صحافی نے چند دن قبل جو کچھ لکھا اس نے سعودی عرب کے اندرو باہر ہلچل مچادی انہوں نے لکھاتھا کہ ’’سعودی معاشرے میں اس بات کو لیکر سخت پریشانی موجود ہے کہ ان کا ملک خطے میں ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ یمن، شام ،لیبیا اور لبنان کی جنگوں میں پھنس چکاہے ۔صحافی کہتاہے کہ ایک طرف سعودی عرب اس مسئلے میں تنہائی کا شکار ہوتا جارہاہے جبکہ اس کا مخالف میدان جنگ میں مزید کامیابیاں حاصل کررہا ہے ‘‘صحافی سعودی عرب کے ایک اہم سرکاری زرائع کی بات نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’یہاں سعودی معاشرے میں ہر سطح پریہاں تک کہ خود آل سعود خاندان میں بھی ایک سنجیدہ قسم کی پریشانی موجود ہے کہ ان جنگوں کی عملی شکل کیاہوگی جبکہ ملک سخت قسم کے اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میدان میں چیزیں ان کے کنٹرول سے نکلتی جارہی ہیں ‘‘

    خلیجی آفیشل میڈیا جو پورے خطے پر زبردست قسم کا کنٹرول رکھتاہے اس جیسی حقیقت پر مبنی پریشان کن صورتحال کو منعکس ہونے ہی نہیں دیتا،گرچہ بعض سعودی قلم کار ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ نہ کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔خلیجی تجزیہ کاروں کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ کچھ یوں ہیںالف:حکمرانوں کے ساتھ ٹکراو کے خوف سے وہ حساس قسم کے موضوعات کو چھیڑنے سے ہی اجتناب کرتے ہیں کیونکہ انہیں کسی بھی لمحے مطلق العنان ڈکٹیٹروں کی تلوار کا خوف ہوتا ہے اس سلسلے میں صرف ایک ٹیوئٹ کی کمترین سزا 10سال قید ہے ۔ب: اس لئے اہم ترین سیاسی و عسکری مسائل کو نظر انداز کرکے دیگر غیرضروی قسم کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جیسے تاریخ ،وھابیت ،عربوں کے درمیان غلط فہمیاں یا پھر عالمی مسائل جیسے امریکی انتخابات وغیرہ۔ج:یا اگر کبھی وہ یمن اور شام میں سعودی عرب کی مداخلت پر بات کریں تو بھی اپنی رائے دینے یا اس جنگ کی مخالفت کرنے سے پر ہیز کرتے ہوئے قاری پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ خود ہی نتیجہ اخذ کرلے ۔معروف سعودی قلم کار’’ خاشقجی‘‘جو اسلام پسندوں اور حکمرانوں دونوں کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ یمن اور شام میں سعودی مداخلت کا سب سے بڑا حامی بھی تصور کیا جاتا ہے ،ایک انتہائی جراتمندانہ اقدام کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ ’’سعودی عرب میں اندرون خانہ شدید قسم کی پریشانی موجود ہے ‘‘ان کا کہنا ہے کہ ’’جس اہم سرکاری عہدہ دار نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کی ہے ہمیں چاہیے کہ اس پر شکست خوردگی کے الزام سے پہلے اسے بغور پڑھیں ‘‘یمن پر’’عاصفۃ الحزم ‘‘نامی جنگ نے سعودی عرب کو مالی و عسکری حوالے سے سخت مسائل میں ڈوبودیا ہے،جدید ترین جنگی سازوسامان ،عرب و غیر عرب افواج کے لشکر وں کے لشکر،یمنی عوام پر بے دریغ بمباری کے باوجود دُور افق پر بھی کہیں اس جنگ میں کامیابی دیکھائی نہیں دیتی ۔شام کے حوالے سے ان ڈائریکٹ مداخلت (جنگجووں کی امداد)اور اب ڈائریکٹ مداخلت کی سوچ (انجرلیک میں طیاروں کا ارسال کرنا اردن کے باڈر پر عسکری موجودگی)ان سب چیزوں کا کسی بھی قسم کا فائدہ نظر نہیں آتا کم از کم اس وقت تک یہ ایک فضول اور بے کار قسم کا کام لگتا ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے نتائج برعکس بھی نکل آئیں کیونکہ گذشتہ پانچ سال میں تو سعودی عرب نے بشار اسدکے خلاف براہ راست جنگ کی جرات نہیں کی لیکن اب جنگ کی خواہش کے سامنے براہ راست روس ،ایران ،حزب اللہ اور اب کُرد بھی کھڑے ہیں ۔سعودی عرب کے سوشل میڈیا د کو دیکھنے کے بعد ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ عوام میں مقبول ’’دینی مبلغین ‘‘یمن جنگ کے حامی نہیں ہیں اور وہ شام میں داعش اور النصرہ اور جہادیوں کیخلاف جنگ کو بھی درست نہیں سمجھتے گرچہ سعودی عرب کی انٹرنیٹ کی فوج اس حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہی ہے(لیکن یہ سعودی معاشرے کی حقیقت ہے کہ شام میں موجود شدت پسندوں کی مذہبی سوچ اور سعودی سرکاری و معاشرتی مذہبی سوچ ایک ہی منبع یعنی وھابیت سے جنم لیتی ہے اور اسے چھپایا نہیں جاسکتا)ہمارا خیال ہے کہ سعودی عرب ایران کے خلاف امریکی اور یورپی پروپگنڈے کے ٹریپ میں آچکا ہےامریکی چاہتے ہیں کہ سعودی عرب ایران سے دور چلاجائے اور اسرائیل کے نزدیک ہوجائے تاکہ کئی دہائیوں سے جاری امریکی نام نہاد جھوٹے ’’فارسی شیعہ ‘‘خطرے کے پروپگنڈے کی تکمیل ہوسکے ۔

    جو کچھ واشنگٹن پوسٹ نے آج لکھا ہے اس کے بارے ہم عرصے سے کہہ رہے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ہماری بات پر کون توجہ دے گا کیونکہ ہم تو ٹہرے گھر کی مرغی جو دال ہی کے برابر ہے ۔
    • Blogger Comments
    • Facebook Comments

    0 comments:

    Post a Comment

    Item Reviewed: سعودی عرب میں اندرونِ خانہ کیا ہورہا ہے؟؟ Rating: 5 Reviewed By: Unknown
    Scroll to Top