728x90 AdSpace

  • Latest News

    Monday 22 February 2016

    سید حسن نصر اللہ کی مکمل تقریر کا متن


    ہم  اپنے شہداء کے قاتلوں سے بدلہ لینا نہیں بھولیں گے۔ سید حسن نصر اللہ کا یوم شہداء کی تقریب سے خطاب اسرائیل اور اس کے عرب اتحادی فرقہ وارانہ فسادات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، سید حسن نصر اللہ کا یوم شہداء پر خطاب اسلامی تحریک مزاحمت حزب اللہ لبنان کے سربراہ جناب سید حسن نصراللہ نے مورخہ سولہ فروری منگل کے روز اسلامی مزاحمت کے عظیم شہداء بشمول حزب اللہ کے شہید قائد سید عباس موسوی ؒ ،شیخ شہید راغب حرب اور عظیم مجاہد شہید عماد مغنیہ کے یوم شہادت کی مناسبت سے منعقدہ یوم شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور اس کے عرب اتحادی فرقہ وارانہ فسادات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں،
    انہوں نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور استعمال کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے سعودی عرب سمیت ترکی اور دیگر اسرائیلی عرب اتحادیوں کو شام میں اپنی فوجیں بھیجنے کے بارے میں خبر دار کیا۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے یوم شہداء کی مناسبت سے منعقدہ تقریب کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی 37ویں سالگرہ کی مناسبت سے امام خامنہ ای اور ملت ایران کو مبارک باد پیش کی اور ساتھ ہی ساتھ بحرین کے عوام کو بھی خراج تحسین پیش کیا کہ جو اب مسلسل جدوجہد کے پانچویں سال میں داخل ہو چکے ہیں، سید حسن نصر اللہ نے ایک سال سے اسرائیلی عرب اتحادیوں کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والے یمن کے مظلوموں کی حمایت کرتے ہوئے گفتگو کو جاری رکھا اور لبنان کے سابق صدر شہید رفیق الحریری کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ شہید رفیق الحریری کے وارثین حزب اللہ کے مخالفین ہیں لیکن یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کے سابق صدر کے تعزیتی اجتماع کے موقع پر ان کے اہل و عیال کو تعزیت پیش کریں اور ہم امید کرتے ہیں کہ بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ جب یہ اجتماع لبنان میں قومی سطح پر منعقد کیا جائے گا۔

     یوم شہداء کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کی خطے میں اہمیت اور بالخصوص لبنان کے لئے افادیت کو بیان کیا اور واضح طور پر کہا کہ ہم اپنے شہداء کے قاتلوں سے بدلہ لینا نہیں بھولیں گے۔

     اسرائیلی امکانات اور دھمکیاں
       اسلامی مزاحمت کے قائد اور حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اسرائیلی امکانات اور اسرائیلی دھمکیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے پاس اس وقت دو امکانات اور دھمکیاں ہیں ۔ سید حسن نصر اللہ نے موجودہ حالات میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی سازشوں کے نتائج ان دو امکانات اور دھمکیوں کی تصدیق کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر سنی اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرا یہ کہ شام کی فوج کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ شامی حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے سربراہ نے اسرائیل کے لئے دو خطرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اپنے خود کے لئے انقلاب اسلامی ایران کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور دوسرا بڑا خطرہ فلسطینی مزاحمتی تحریکیں بالخصوص لبنان میں موجود فلسطینی مزاحمتی تحریک حزب اللہ ہے ۔ سید حسن نصر اللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ اور عرب ذرائع ابلاغ ایک ہی جیسی بیان بیازیاں کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں بالخصوص سعودی عرب اور گلف ممالک کے ذرائع ابلاغ میں یہ رحجان زیادہ پایا جا رہاہے۔اسرائیلی اور عرب ذرائع ابلاغ میں استعمال ہونے والی اصطلاحات میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے اور خاص طور پر سعودی عرب اور گلف ممالک کے ذرائع ابلاغ اس کام میں اسرائیل کے ہم پلہ ہیں۔ اسی عنوان سے مزید وضاحت کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک مل کر خطے میں شیعہ سنی فساد کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو کچھ بھی خطے میں رونما ہو رہا ہے اسے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین تصادم بنا کر پیش کر رہے ہیں اور یہی کچھ انہوں نے شام، یمن، بحرین، عراق اور لبنان کے معاملے میں کیا ہے۔ 

    اسرائیل ۔۔۔ایک عرب اتحادی :  
     سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کی جانب سے جاری گھناؤنی سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے موجودہ صورتحال میں خود کو دنیا بھر میں بالخصوص عرب دنیا میں سنی مسلمانوں کا خیر خواہ کہلوانا شروع کر دیا ہے اور یہی کچھ انہوں نے کچھ لبنان کے سنی مسلمانوں کے ساتھ مل کر کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور اسی طرح اسرائیل نے کوشش کی ہے کہ لبنان اور فلسطین کے عیسائیوں کو یقین دلوائے کہ اسرائیلی عیسائیوں کا دوست ہے ،حتیٰ فلسطینی دروز قوم کو بھی اسی طرح کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے ۔ سید حسن نصرا للہ نے کہا کہ غاصب صیہونی اسرائیل خود کوعرب اتحادی اور سنی مسلمانوں کا دفاع کرنے والا دوست بن کر پیش ہو رہاہے اور اس بات کو کچھ عرب ممالک میں تسلیم بھی کیا گیا ہے۔اس صورتحال میں عرب حکومتیں خود اپنے ہی عوام کا استحصال کر رہی ہیں۔ حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ نے نام نہاد سنی عرب حکمرانوں (اسرائیلی اتحادیوں) سے سوالات کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ ، اے نام نہاد سنی عرب (اسرائیلی اتحادیوں) کیا تم گوارہ کرتے ہو کہ ایک ایسے دشمن کو اپنا دوست قرار دو کہ جس نے خود سنی سر زمین ’’فلسطین‘‘ پر نہ صرف غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے بلکہ وہاں لاکھوں سنی مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا ہے؟کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اکیس سالہ نوجوان لڑکی صیہونی فوجیوں کی گولیوں سے تڑپ تڑپ کر سڑک پر جان دے رہی ہے؟کس طرح کوئی سمجھ دار شخص ان سنی عرب ریاستوں میں اسرائیل جیسے خون خوار اور خطر ناک دشمن کو اپنا دوست اور خیر خواہ تصور کر سکتا ہے ؟ سید حسن نصر اللہ نے ایسے تمام عرب حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو خطے میں شیعہ سنی تفریق پیدا کر رہے ہیں اور اسرائیل کو سنی مسلمانوں کا دوست بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ تم سب کے سب آزاد ہو کہ تم انقلاب اسلامی ایران کو اپنا دشمن سمجھو لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ تم اسرائیل کو سنی مسلمانوں کا دوست قرار دو اور اسرائیل جیسی غاصب اور دہشت گرد ناجائز ریاست کو عرب اتحادی تصور کرو؟حتیٰ اسی صیہونی غاصب ریاست اسرائیل نے قبلہ اول پر تسلط قائم کیا ہے ، مسجد اقصیٰ جو تمھارے نزدیک سنی مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے حالانکہ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس پر صیہونی اسرائیل آئے روز حملے کرتا ہے اور تم اسرائیل کو کیسے سنی مسلمانوں کا دوست قرار دے کر عرب اتحادی بنا کر پیش کر رہے ہو؟یقیناًیہ عرب حکمران کینہ پرور ، جاہل اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے مزید خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عرب اس سرائیل کو سنی مسلمانوں کا دوست اور عرب اتحادی تسلیم کرتے ہیں تو یہ یاد رکھا جائے کہ پھر سنی ریاست فلسطین بھی اسرائیل کی سنی دوستی میں شامل ہو گی اور فلسطینی مظلوم ملت کی جد وجہد بھی نقصان اٹھائے گی۔ یعلون اور نیتن یاہو مسلسل خود کو سنی اور عرب ریاستوں کا خیر خواہ اور دوست اور ایک عرب اتحادی کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں۔

    سید حسن نصر اللہ نے مسلم امہ کے علماء اور اکابرین سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کے اس منفی ہتھکنڈے کے خلاف متحد ہو کر وضاحت کریں اور اسرائیل کی جانب سے سنی مسلمانوں کی دوستی کے اس جھوٹے اور مکارانہ فعل کو مسترد کریں ورنہ بصورت دیگر فلسطین ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ 

    شام میں ترکی اور سعودی عرب سمیت اسرائیل کو شکست ہو گی: 
     شام کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ شام اسلامی مزاحمت کا ایک مضبوط ستون ہے اور شام میں حکومت کا خاتمہ در اصل اسرائیل کے مفاد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے لئے بشار الاسد کے علاو ہ تمام آپشن قابل قبول ہیں حتیٰ اسرائیل النصرۃ اور داعش کے دہشت گردوں کی حکومت کو بھی قبول کر لے گا۔ان کاکہنا تھا کہ اسرائیل ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ شام میں حکومت کے خاتمے کے معاملے پر جارح انداز میں وارد ہے۔حالانکہ ان کے مابین ہونے والی حالیہ کانفرنس میں یہ اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ شام میں اسد حکومت کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کی شام میں حکومت کے خاتمے کے بارے میں ناکامی اور شکست تسلیم کرنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج اسرائیل یہ چاہتا ہے شام کو کسی طرح سیاسی بنیادوں میں تقسیم کیا جائے اور شام کے سیاسی نظام میں دخل اندازی کے راستے پیدا کئے جا سکیں اور اسرائیل شام میں اپنے پسندیدہ سیاسی نظام میں کسی حد تک القاعدہ کو بھی جگہ دینے کی کوشش کر رہاہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، ایک سنی ریاست، دوسری علوی ریاست، تیسری کرد ریاست جبکہ چوتھی دروز ریاست۔ سید حسن نصر اللہ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسرائیل شام کی تقسیم کے معاملے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے کیونکہ شام کی افواج شمالی حلب میں لاتاکیا، جنوبی درعا، حساکہ،اور دیر الزور میں اسرائیلی اور عرب حمایت یافتہ دہشت گردوں سے برسرپیکار ہیں اور اس بات کا مطلب یہ ہے کہ شام کا قومی فیصلہ یہ ہے کہ انہوں نے تقسیم کو مسترد کر دیا ہے۔جو لوگ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ شام میں موجود جنگجوؤں کا مقصد ایک الگ ریاست کا حصول ہے تو یقیناًوہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اسرائیل سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ اس بات پر متفق ہو اہے کہ شام کے مسائل کے بارے میں کسی بھی قسم کے حل کو تسلیم نہ کیا جائے کہ جس میں بشار الاسد اختیار میں رہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ،سعودی عرب او ر ترکی نے شام کے مسئلہ کے حل کو ہمیشہ مسترد کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مذاکرات کے عمل کو مفلوج کر رکھا ہے۔انہوں نے شام کے مسئلہ کے حل میں پیشگی شرائط لگا کر ہمیشہ مذاکرات سبوتاژ کیا ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ امریکہ نے بھی ان کے اس عمل پر تنقید شروع کر دی ہے۔سعودی عرب ارو ترکی کی جانب سے پیشگی شرائط در اصل یورپ اور امریکیوں کو قابل قبول نہیں اور ان کے لئے فرق نہیں پڑتا ہے کہ جنگی عمل کتنا طویل ہو رہا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ بہر حال آج پانچ سال سے شام کی عالمی جنگ جاری ہے اور خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کو آج تک شکست کا سامنا ہے۔حتیٰ کہ القاعدہ کی بربریت کی مہم جسے النصرۃ اور داعش کے نام سے متعارف کیا گیا تھا وہ بھی بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔اسی طرح ترکی کو نئی سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سامنا ہے اور خود سعودی عرب بھی شام میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے شام میں ملنے والی فتوحات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کامیابیاں اور فتح در اصل اس بات کا ثبوت ہے کہ شامی افواج اور اس کے اتحادیوں نے اس محاذ پر عظیم ترین پیشرفت کر لی ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے ترکی اور سعودی عرب کی جانب سے شام میں زمینی دستے بھیجے جانے کے اعلان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ بہت اہم بات ہے کہ کیونکہ ایک طرف شام میں موجود دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ رہی ہے اور اب ترکی اور سعودی عرب چاہتے ہیں کہ یہی دہشت گرد کسی بین الاقوامی فوجی اتحاد کی آڑ میں محفوظ ہو جائیں اور اس جنگ میں شامل بھی رہیں ، در اصل ترکی اور سعودی عرب کی جانب سے فوجی دستوں کو شام بھیجے جانے کا اعلان در اصل دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کو ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیا کرنے کے مترادف ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے اس تاثر کو بھی سختی سے مسترد کیاکہ شامی حکومت عرب ممالک کے دباؤ میں آ کر جھک گئی ہے بلکہ انہوں نے کہاکہ شام کی افواج پورے ملک میں ہر جگہ پر موجود ہیں ۔ سید حسن نصر اللہ نے ترکی اور سعودی عرب کے زمینی دستوں کی شام آمد کے بارے میں کہا کہ چاہے وہ آئیں یا نہ آئیں، یہ اچھا ہے۔اگر ترکی اور سعودی عرب کی افواج شام آتی ہیں تو یہ شام کے مسئلہ کے حل کے لئے بہت اچھا ہے البتہ اس کے لئے کچھ ٹائم لگے گا،اگر وہ نہیں آتے تو خطے کے مسائل حل ہو جائیں گے اور اس میں بھی کچھ ٹائم تو لگے گا ۔بہتر ہے کہ قصہ تمام ہو جائے۔ سعودی دھمکیاں: آؤ اگر تم آنا چاہتے ہو۔۔۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ سعودی اور ترکی افواج کی شام میں مداخلت در اصل داعش کے خلاف جنگ کے لئے نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ یہ دونوں مذاکرات کی میز پر بھی مسئلہ کے حل میں رکاوٹ ہیں۔سعودی عرب اور ترکی آج نیند سے بیدار ہوئے ہیں جو ان کو داعش خطرہ محسوس ہو رہی ہے؟وہ پہلے سے ہی جانتے ہیں اور بیدار تھے لیکن ان گروہوں کی مدد کر رہے تھے اب جب کہ یہ گروہ شکست کھا رہے ہیں تو صورتحال تبدیل ہے۔آج سعودی عرب اور ترکی شام کے معاملے میں ایک بڑی جنگ یا پھر عالمی جنگ چھیڑنے کے لئے تو تیار ہیں لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔مزید یہ کہ وہ اس معاملے میں حقیقی حل نہیں چاہتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے کہاکہ اگر ترکی داعش اور اس جیسی دہشت گرد گروہوں سے جنگ کرنا چاہتا ہے تو پہلے اپنی سرحد پر ان کو روکے اور ان کے ساتھ تیل کی جاری مسلسل تجارت کے عمل کو بند کرے۔صورتحال یہ ہے کہ اب سعودی عرب جو شام میں داعش کے خلاف جنگ کرنے آ رہاہے خود یمن میں داعش کی ایک نئی شاخ کو مستحکم کر چکا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہم ہر جگہ موجود رہیں گے جہاں ہمیں ہونا چاہئیے، ہم ہر گز امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، ترکی، داعش ، النصرۃ اور القاعدہ سمیت کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ شام کو اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کریں۔ہم حزب اللہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی کوششوں اور توانائیوں کو لبنان اور بالخصوص شام اور خطے کے دفاع اور استحکام کے لئے صرف کیا ہے۔

     اسرائیل کے جوہری طاقت کی حوصلہ شکنی: 
       سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیل حزب اللہ کے خلاف نفسیاتی جنگ اور محاذ آرائی میں ہمیشہ ناکام رہا ہے،یہ بین الاقوامی اور عرب اور خلیجی ممالک کا ذراع ابلاغ ہے کہ جو ہمارے خلاف ہر وقت سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔یہ اسرائیل کی خاطر جنگ کا ایک حصہ ہے جو کہ کسی بھی مزاحمتی ملک کے خلاف ہے،اور یہ نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی جنگ کے بارے میں خوف کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسرائیل لبنان میں پہلی اور دوسری جنگ میں مسلسل شکست کے بعد کسی ایسی جنگ کی کوشش کر رہاہے کہ جس میں اسے مکمل کامیابی کی گارنٹی حاصل ہو۔اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ لبنان میں اسے نہ تو فوری اور یقینی فتح حاصل ہونی ہے کیونکہ لبنان میں فورس موجود ہے جو اس لبنان کا دفاع کرتی ہے۔ تمام تر خطرات اور معاملات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ شامی عوام کو طے کرنا ہے کہ ان کے لئے صدر کون ہو گا ؟ نظام کیا ہو گا اور حکومت کس نے کرنی ہے۔ ہم نہ تو جنگ چاہتے ہیں اور نہ ہی جنگ کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم ہر قسم کی جنگ کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔اسرائیل کی جانب سے لبنان پر تیسری جنگ مسلط کئے جانے کے بارے میں اڑنے والی افواہوں اور خبرو ں کے بارے میں سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ہمارے خلاف نفسیاتی حربے کسی کام کے نہیں ہیں ۔ سید حسن نصر اللہ نے اسلامی مزاحمت حزب اللہ کی صلاحیتوں کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ حزب اللہ کے چند راکٹ جو کہ شمالی مقبوضہ فلسطین کے علاقے حیفہ تک جا سکتے ہیں اور بیک وقت چند راکٹ حیفہ پر گرنے کا مطلب ہے کہ ’’ایٹم بم‘‘ کے برابر ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ خود ایک اسرائیلی تجزیہ نگار اس بات کو بتا چکا ہے کہ حیفہ میں اسرائیل کا جوہری پلانٹ کہ جس کی پندرہ ہزار ٹن سے زیادہ گیس رکھتا ہے خود حیفہ کے لئے خطرہ ہے۔اس کی تباہی کا مطلب ہے کہ دسیوں ہزار صیہونی واصل جہنم ہو جائیں گے اور آٹھ لاکھ سے زائد صیہونی متاثر ہو ں گے۔یہ یقیناًایک ایٹم بم کے حملے کی طرح ہو گا اور ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ لبنان کے پاس ایٹم بم ہے ، ہمارے راکٹ جب اسرائیلی جوہری انرجی کے ان گیس بھرے ٹینکوں پر ٹکرائیں گے تو یقیناًیہ ایک ایٹم بم حملہ ہو گا۔ سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی لبنان کے علاقوں میں موجود صیہونی فوجیوں کو واپس لے جاؤ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے راکٹ اسرائیلی جوہری ٹینکوں پر برسا دیں او ر پھر دسیوں ہزار صیہونی مارے جائیں، ۔۔۔ہمیں مت آزمانا!!!

    • Blogger Comments
    • Facebook Comments

    0 comments:

    Post a Comment

    Item Reviewed: سید حسن نصر اللہ کی مکمل تقریر کا متن Rating: 5 Reviewed By: Unknown
    Scroll to Top