امریکہ دنیا میں امن کےخلاف ایک دہشت ناک آواز کانام ہے آپ دنیا کے کسی بھی خطے میں اگر بدامنی اورجنگ وجدل کودیکھیں تو بغیر سوچےسمجھے یہ کہہ دیں کہ اس میں امریکہ کاہاتھ ضرور ہوگا۔امریکہ دراصل دنیا کی وہ منفی قوت ہےجس کامنشور ہی تخریب کاری،فتنہ پردازی ،فساد اورخون ریزی ہے یہ وہ عہد ہےجو ابلیس نے اللہ سےکیا تھا آج امریکہ ابلیس کاوہ بازو ہےجس کےذریعے دنیا کے اندر ابلیسی مقاصد پروان چڑھ رہےہیں۔ان مقاصد میں ناجائز قبضے،ملکوں کی دولت پرڈاکے ،دنیا کےوسائل کوہتھیانے اورسب کواپنامحکوم بنا کررکھنے کی حکمتِ عملی پوشیدہ ہے
امریکہ جس ملک میں بھی گیا اُس نےاُس ملک کی بنیادوں کوکمزور کرنےکی کوشش کی اورایسی حکمت عملی اپنائی کہ وہ ملک اُس کااسیر ہوکررہ گیا۔اگر کسی ملک کوامریکہ امداد دیتا ہے یاقرضہ دیتاہے تواُس کامقصد بھی اُس ملک کو اپنے پنجے تلے رکھنا مقصود ہوتا ہے،امریکہ نے اپنا ایک بغل بچہ اسرائیل پال رکھا ہے،اسرائیل دنیا کے اندر فتنے کانام ہےعرب ممالک کہ جہاں پرقدرتی وسائل تیل اورگیس کےذخائر موجود ہیں وہاں پراسرائیل کوبٹھا دینا اوراُس کےذریعے عرب دنیا میں سازشوں کاجال بچھا دینا اورمسلمانوں کاقتل عام کروانا اورمسلم دنیا میں فرقہ وارانہ جنگ کوعام کرنا امریکہ کےخطرناک عزائم کاحصہ ہے۔
امریکہ ہر صورت میں اسرائیل کوامداد پہنچاتا رہےگا، کیونکہ یہ امریکہ کی بنیادی پالیسی کا اہم ستون ہے۔اس وقت جبکہ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیتے ہیں امریکہ اسرائیل کوتاریخ کی سب سےبڑی امداد فراہم کرنےجارہا ہےامریکہ اوراسرائیل کےدرمیان دفاع کاایک بڑامعاہدہ طے پاچکا ہے جس کےتحت امریکہ آئندہ کے10 برسوں میں اسرائیل کو 38 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرےگااس معاہدے کی روسے امریکہ ہرسال اسرائیل کو8.3ارب کی دفاعی امداد دےگا۔ اس معاہدے کےتحت اسرائیل کو امریکہ میزائل پروگرام کےلیےبھی رقم فراہم کرےگا۔اس معاہدے میں یہ بھی تحریر ہےکہ امریکہ اسرائیل کوہنگامی صورت میں اضافی مدد فراہم کرنے کابھی پابند ہوگا صورت حال یہ ہے کہ حالیہ شام کی جنگ میں مقاومتی گروہوں کی فتح اوراسرائیل نواز گروہوں کی شکست نےاسرائیل کے لیے بےشمار سوالات کوجنم دیا ہے۔
اسرائیل کےوہم وگمان تک نہ تھا کہ اس طرح حلب آزاد ہوجائے گا اوراُس کے حمایت یافتہ دہشت گرد شکست سےدوچار ہوجائیں گے اب اسرائیل پہلے سےزیادہ خود کو غیرمحفوظ تصور کررہا ہے،خاص طور پرشام کےمحاذ پرحزب اللہ کی فتح نےاسرائیل کےگھر میں صفِ ماتم بچھا دی ہے۔
اس لیے اسرائیل اب امریکہ کےساتھ مل کرخطے میں خود کومستحکم رکھنے کےلیے نیا محاذ کھولےگا لیکن حقیقت یہ ہےکہ اب اسرائیل کی بالادستی کےدن پورے ہوچکے ہیں اور پوری دنیا میں اسرائیل اب خود کوتنہا محسوس کررہا ہے اسی احساسِ تنہائی کےردّ عمل میں اسرائیل کےوزیراعظم نیتن یاہو نےایک اسلامک ملک آزبائی جان کا دورہ کیا تاکہ یہ باور کراسکے کہ وہ مسلمانوں کےحوالے سے اپنی اہمیت برقراردیکھتا ہے اورآذربائی جان کےساتھ بعض تیل کےمعاہدے کرکے وہ اپنی معاشی حالت کوبہتر بنانے کی حکمتِ عملی پرکام جاری رکھے ہوئے ہے اوراُس کی مسلم ممالک میں ایک ساکھ محفوظ ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ ایک آدھ اسلامی ملک کادورہ کرنے سےاسرائیل اپنی ساکھ کو بہتر نہیں بنا سکتا اس وقت عالم اسلام میں اس صیہونی ریاست کےبارے سخت نفرت پائی جاتی ہے کیونکہ اس غاصب ریاست کےہاتھ معصوم فلسطینی بچوں کےخون سےرنگین ہیں امریکہ بھی اندر سے یہ محسوس کرچکا ہے کہ اسرائیل کی دوستی اُس کی ساکھ کوبھی نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن امریکہ کی مجبوری ہےکہ وہ اسرائیل کاساتھ نہیں چھوڑ سکتا اوردوسرے الفاظ میں اسرائیل امریکہ کی ضرورت بھی ہے تاکہ عرب ممالک کواسرائیل کےذریعے کنٹرول کیا جاسکے۔
0 comments:
Post a Comment