728x90 AdSpace

  • Latest News

    Tuesday 23 February 2016

    حضرت امام زین العابدین علیہ السلام

    حضرت امام زین العابدین علیہ السلام


    علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (ع)، (میلاد 38 ہجری شہادت 94 ہجری) المعروف بہ امام سجاد اور زین العابدین، شیعیان آل رسول کےچوتھے امام ہیں۔ آپ کی امامت کا دور 34 سال کے عرصے پر محیط ہے۔ آپ واقعہ کربلا میں حاضر تھے۔ آپ کی زندگی کے دوسرے اہم واقعات میں واقعۂ حرہ، توابین کی تحریک اور مختار کا قیام، شامل ہیں۔ آپ کی کتابیں صحیفۂ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق عالمی شہرت کی حامل ہیں۔ آپ ولید بن عبدالملک کے حکم پر مسموم اور شہید کئے گئے۔ [1] آپ کا مدفن جنت البقیع میں اپنے چچا قبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کے پہلو میں ہے۔[2] 

    نسب، لقب، کنیت

    علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، معروف بہ امام سجاد اور امام زین العابدین، شیعیان آل رسول(ص) کے چوتھے امام اور سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں۔
    اختلافی مسائل میں سے ایک آپ کی والدہ شہربانو کا نام اور نسب ہے۔ آپ کی والدہ کے لئے متعدد نام نقل ہوئے ہیں اور شہربانو، شہربانویہ، شاہ زنان اور جہان شاہ ان ہی ناموں میں شامل ہیں۔ امام سجاد(ع) کی ساسانی شہزادی کے بطن سے متولد ہونے کی روایات کو کچھ عرصے سے رد کیا جارہا ہے تاکہ تشیع کے دشمن ان روایات سے استناد کرکے یہ دعوی نہ کریں کہ ایران میں تشیع کا فروغ ـ امام سجاد(ع) کی والدہ کے توسط سے، جو دعوی کیا جاتا ہے کہ یزدگر سوئم کی بیٹی ہیں ـ اہل بیت علیہم السلام کی ساسانی خاندان سے وابستگی، کے مرہون منت ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر شہیدی نے اپنی کتاب "علی بن الحسین" میں اس سلسلے میں منقولہ تمام روایات کو نقل کرکے ان کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ علاوہ از این معدودے چند روایات اینی بھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ امام سجاد(ع) کی والدہ "ام ولد" ہیں؛ تاہم مرویات میں تمام تر اختلافات ـ جن میں سے اسلامی فتوحات سے متعلق روایات کے ساتھ تضاد بھی رکھتی ہیں ـ کے باوجود یا امر مسلّم ہے کہ یہ روایت بنیادی طور پر ایک مشہور روایت ہے اور قدیم ترین شیعہ منابع و مآخذ ـ منجملہ: وقعۃ صفین، تاریخ یعقوبی اور بصائر الدرجات جنہیں تیسری صدی ہجری میں تالیف کیا گیا ہے۔
    امام سجاد(ع) اپنے زمانے میں علي الخیر، علي الاصغر اور علي العابد کے نام سے مشہور تھے۔ [3]
    حدیث امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: 

    يـا بـُنـىََّ اصْبِرْ عَلَى النَّوائِبِ وَلا تَتَعَرَّضْ لِلْحُقُوقِ وَلا تُجِبْ اَخاكَ اِلَى اْلاَمرِ الَّذى مَضَرَّتُهُ عَلَيْكَ اَكْثَرُمَنْ مَنْفَعَتِهِ لَهُ۔ ترجمہ: زندگی کے مصائب اور آزمائشوں پر صبر کرنا، اور دوسروں کے حقوق کی طرف تجاوزہ مت کرنا اور ایسے کاموں میں بھائیوں کی مدد نہ کرنا جن کے نتیجے میں تمہیں پہنچنے والا نقصان بھائیوں کو پہنچنے والے فائدے سے کہيں زیادہ ہو)۔[4]

    کنیات و القاب
    امام علی بن الحسین(ع) کی کنیات "ابو الحسن"، "ابو الحسین"، "ابو محمّد" اور "ابو عبداللہ" ہیں۔ [5]
    آپ کے القاب میں زین العابدین، سید الساجدین، سجاد، ہاشمی، علوی، مدنی، قرشی اور علی اکبر شامل ہیں۔[6]
    "ذوالثَّفنات" آپ کے دیگر القاب میں سے ہے جو امام سجاد(ع) کو دیا گیا ہے (کیونکہ عبادت اور نماز و سجود کی کثرت کی وجہ سے آپ کے اعضائے سجدہ (مساجد) پر اونٹ کے گھٹنوں کی طرح گھٹے پڑ گئے تھے)۔[7]
    انگشتریوں کے نقش
    امام سجاد علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے تین نقش منقول ہیں:
    آپ(ع) امام حسین(ع) کی وہ انگشتری پہن لیا کرتے تھے جس پر "إِنَ‏ اللَّهَ‏ بالِغُ‏ أَمْرِه" (یعنی خداوند متعال اپنا امر و فرمان انجام تک پہنچا دیتا ہے) کا نقش تھا۔[8] آپ(ع) کی دوسری انگشتریوں کے نقش"وَما تَوْفِیقِی‏ إِلَّا بِاللَّه"،[9] اور"خَزِی‏ وَشَقِی‏ قَاتِلُ الْحُسَینِ بْنِ عَلِی"۔[10]۔[11]

    ولادت اور وفات

    قول مشہور یہ ہے کہ امام سجاد(ع) سنہ 38 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں اور اس صورت میں آپ نے امام علی علیہ السلام، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی حیات اور ادوار امامت کا ادراک کیا ہے اور معاویہ کی طرف سے عراق اور دوسرے علاقوں کے شیعیان آل رسول(ص) کو تنگ کرنے اور ان پر دباؤ بڑھانے کی سازشوں کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں؛ گوکہ بعض تاریخی منابع نے قولِ مشہور کے برعکس آپ کی عمر کم بتائی ہے اور آپ کی ولادت سنہ 48ہجری کے لگ بھگ بتائی ہے۔[12] اگرچہ یہ روایات متعدد منابع میں نقل ہوئی ہیں لیکن ایسے شواہد پائے جاتے ہیں جو ان روایات سے متصادم اور ان قبول کرنے میں رکاوٹ ہیں؛ مثلاً مشہور مؤرخین اور سیرت نگاروں نے آپ کا سال ولادت سنہ 38 ہجری قرار دیا ہے اور اس لحاظ سے واقعۂ کربلا میں امام سجاد(ع) کی عمر 23 برس قرار دی گئی ہے۔
    اہل سنت کی تاریخی روایات کے راوی محمد بن عمر الواقدی، نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے: "علی بن الحسین (زین العابدین(ع) نے 58 سال کی عمر میں وفات پائی" اور اس کے بعد رقمطراز ہے: "اس لحاظ سے امام سجاد(ع) 23 یا 24 سال کی عمر میں کربلا کے مقام پر اپنے والد امام حسین(ع) کی خدمت میں حاضر تھے۔[13]
    نیز زہری نے بھی کہا ہے کہ علی بن الحسین(ع) 23 سال کی عمر میں کربلا میں اپنے والد کے ہمراہ تھے۔[14]
    امام سجاد(ع) سنہ 94 (یا 95) ہجری میں اس زہر کے ذریعے جام شہادت نوش کرگئے جو ولید بن عبدالملک کے حکم پر انہيں کھلایا گیا تھا۔[15] آپ(ع) کو جنت البقیع میں چچا امام حسن مجتبی(ع) کے پہلو میں دفن کردیئے گئے۔[16]

    ازواج اور اولاد

    تاریخی منابع میں منقول ہے کہ امام سجاد(ع) کی پندرہ اولادیں ہیں جن میں سے گیارہ( 11) بیٹے اور چار (4) بیٹیاں ہیں۔ [17]
    حدیث: امام سجاد(ع) نے فرمایا: 

    "وَاَمّا حَقُّ الزَّوجَةِ فَاَنْ تَعْلَمَ اَنَّ اللّه‏َ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَها لَكَ سَكَنا وَاُنْسا فَتَعْلَمَ اَنَّ ذلِكَ نِعْمَةٌ مِنَ اللّه‏ِ عَلَيْكَ فَـتُـكْرِمَها وَ تَرْفُقَ بِها وَاِنْ كانَ حَقُّكَ اَوجَبَ فَاِنَّ لَها عَلَيْكَ اَنْ تَرْحَمَها"۔ 

    (ترجمہ: زوجہ کا حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ خداوند عز و جل نے اس کو تمہارے لئے سکون اور انسیت کا سبب قرار دیا ہے پس جان لو کہ یہ نعمت تم پر اللہ کی جانب سے ہے پس اس کا اکرام کرو اور اس کے ساتھ رواداری سے پیش آؤ، گو کہ تمہارا حق اس پر واجب تر ہے مگر یہ اس کہ حق ہے کہ تم اس کے ساتھ مہربان رہو)"۔ [18]

    حدیث: امام سجاد(ع) نے فرمایا: 

    "وَ أَمّا حَقّ وَلَدِكَ فَتَعْلَمُ أَنّهُ مِنْكَ وَمُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدّنْيَا بِخَيْرِهِ وَشَرّهِ وَأَنّكَ مَسْئُولٌ عَمّا وُلّيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَالدّلَالَةِ عَلَى رَبّهِ وَالْمَعُونَةِ لَهُ عَلَى طَاعَتِهِ فِيكَ وَفِي نَفْسِهِ فَمُثَابٌ عَلَى ذَلِكَ وَمُعَاقَبٌ"۔ 

    (ترجمہ: اور تم پر تمہاری اولاد کہ حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ وہ تم سے ہے اور اس دنیا کی نیکی اور بدی میں میں تم سے پیوستہ ہے۔ اور تم ـ خدا کے حکم کے مطابق، اس پر اپنی ولایت کے پیش نظر، اس کی عمدہ پرورش کرنے، نیک آداب سکھانے اور خدائے عزوجل کی طرف راہنمائی کرنے اور خدا کی فرمانبرداری میں اس کی مدد کرنے میں اپنے حوالے سے بھی اور اس کے حوالے سے بھی، جوابدہ ہو؛ اور اس ذمہ داری کے عوض جزا اور سزا پاؤگے۔[19]

    شیخ مفید کے مطابق امام سجاد(ع) کے فرزندوں کے نام کچھ یوں ہیں:[20]
    امام محمد باقر(ع)، جن کی والدہ ام عبداللہ بنت امام حسن مجتبی(ع) ہیں۔
    1. عبداللہ
    2. حسن
    3. حسین اکبر، ان تینوں کی والدہ ام ولد تھیں۔
    4. زید
    5. عمر، ان دونوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
    6. حسین الاصغر
    7. عبدالرحمن
    8. سلیمان، ان تینوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
    9. علی، جو امام سجاد(ع) کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔
    10. خدیجہ ان کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
    11. محمد الاصغر ان کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔
    12. فاطمہ
    13. علّیہ
    14. ام کلثوم، ان تینوں کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔

    امامت

    عاشورا سنہ 61ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی امام سجاد(ع) کی امامت کا آغاز ہوتا ہے اور آپ کا دوران امامت سنہ 94 یا 95 ہجری میں آپ کی شہادت تک جاری رہتا ہے۔

    دلائل امامت

    کتب حدیث میں شیعہ محدثین کی منقولہ نصوص کے مطابق امام سجاد(ع) اپنے والد امام حسین علیہ السلام کے جانشین ہیں۔[21]
    علاوہ ازیں رسول اللہ(ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 آئمۂ شیعہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سمیت تمام ائمہ(ع) کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[22]
    حدیث: امام سجاد(ع) نے فرمایا: "امام سجاد(ع) نے فرمایا: 

    "وحق من أساءك أن تعفو عنه، وإن علمت أن العفو يضر، انتصرت، قال الله تبارك وتعالى:وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ"۔ 
    (ترجمہ: اگر کسی نے تمہیں نقصان پہنچایا تو اس کا حق یہ ہے کہ اسے بخش دو اور اگر جان لو کہ درگذر کرنا نقصان دہ ہے، تو اس سے اپنا حق لے لو؛ کیونکہ خداوند متعال کا فرمان ہے کہ
    وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍترجمہ: اور جو اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے تو یہ لوگ وہ ہیں جن پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے (دوسروں سے) مدد مانگو"۔ [23]--[24]

    نیز شیعہ نصوص کے مطابق رسول اللہ(ص) کی تلوار اور زرہ وغیرہ کو ائمہ کے پاس ہونا چاہئے اور یہ اشیاء ہمارے شیعہ ائمہ کے پاس تھیں اور، حتی کہ اہل سنت کے کتابوں میں اس امر پر صراحت کی گئی ہے رسول خدا(ص) کی یہ اشیاء امام سجاد(ع) کے پاس تھیں۔ [25]
    علاوہ ازیں امام سجاد(ع) ملت تشیع نے امام کے طور پر قبول کیا اور آپ کی امامت آپ کی امامت کے آغاز سے آج تک مقبول عام ہے جو خود اس حقیقی جانشینی کا بیِّن ثبوت ہے۔

    معاصر سلاطین

    1. یزید بن معاویہ (61- 64ہجری)
    2. عبد اللہ بن زبیر (61- 73ہجری) که به صورت مستقل حاکم مکه بود.
    3. معاویہ بن یزید (چند ماه از سال 64ہجری).
    4. مروان بن حَکَم (نه ماه از سال 65ہجری).
    5. عبد الملک بن مروان (65- 86ہجری).
    6. ولید بن عبد الملک (86- 96ہجری).[26]

    علم اور حدیث میں آپ کا رتبہ

    علم اور حدیث کے حوالے سے آپ کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ حتی اہل سنت کی چھ اہم کتب صحاح ستہ "صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائیسنن ابن ماجہ نیز مسند ابن حنبل سمیت اہل سنت کی مسانید" میں آپ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں، [27] اور مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری نے اپنی کتاب کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجاد(ع) سے احادیث نقل کی ہیں۔[28]
    الذہبی رقمطراز ہے: امام سجاد(ع) نے پیغمبر(ص) امام علی بن ابی طالب سے مرسل روایات نقل کی ہیں جب آپ نے (چچا) حسن بن علی(ع) (والد) حسین بن علی(ع)، عبداللہ بن عباس، صفیّہ، عائشہاور ابو رافع سے بھی حدیث نقل کی ہے اور دوسری طرف سے امام محمد باقر(ع)، زید بن علی، ابو حمزہ ثمالی، یحیی بن سعید، ابن شہاب الزہری، زید بن اسلم اور ابو الزناد نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[29]

    فضائل و مناقب

    عبادت

    مالک بن انس سے مروی ہے کہ علی بن الحسین دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز بجا لاتے تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے چنانچہ آپ کو زین العابدین کہا جاتا ہے۔[30] 
    ابن عبد ربّہ لکھتا ہے: علی بن الحسین جب نماز کے لئے تیاری کرتے تو ایک لرزہ آپ کے وجود پر طاری ہوجاتا تھا۔ آپ سے سبب پوچھا گیا تو فرمایا: "وائے ہو تم پر! کیا تم جانتے ہو کہ میں اب کس ذات کے سامنے جاکر کھڑا ہونے والا ہوں! کس کے ساتھ راز و نیاز کرنے جارہا ہوں!؟"۔[31] 
    مالک بن انس سے مروی ہے: علی بن الحسین نے احرام باندھا اور لبیّكَ اللهمّ لبَيكَ پڑھ لیا تو آپ پر غشی طاری ہوئی اور گھوڑے کی زین سے فرش زمین پر آ رہے۔[32]

    غرباء و مساکین کی سرپرستی

    ابو حمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ علی بن الحسین(ع) راتوں کو اشیاء خورد و نوش اپنے کندھے پر رکھ کر اندھیرے میں خفیہ طور پر غرباء اور مساکین کو پہنچا دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: "جو صدقہاندھیرے میں دیا جائے وہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے"۔[33] 
    محمد بن اسحاق کہتا ہے: کچھ لوگ مدینہ کے نواح میں زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کے اخراجات کہاں سے پورے کئے جاتے ہیں، علی ابن الحسین(ع) کی وفات کے ساتھ ہی انہيں راتوں کو ملنے والی غذائی امداد کا سلسلہ منقطع ہوا۔ [34]

    حدیث: امام سجاد(ع) نے فرمایا: 

    "وَأَمّا حَقّ الْمَسْئُولِ فَحَقّهُ إِنْ أَعْطَى قُبِلَ مِنْهُ مَا أَعْطَى بِالشّكْرِ لَهُ وَالْمَعْرِفَةِ لِفَضْلِهِ وَطَلَبِ وَجْهِ الْعُذْرِ فِي مَنْعِهِ""۔

    ترجمہ: سائل کا حق یہ ہے کہ اس کو ضرورت کے مطابق عطا کرو اور مسئول (وہ جس سے مانگا گیا ہے) کا حق یہ ہے کہ اگر اس نے کچھ دیا تو (سائل) تشکر اور سپاس اور اس کے فضل و مہربانی کی قدر کرکے قبول کرے اور اگر کچھ نہ دیا تو اس کا عذر قبول کرے"۔[35]--[36]

    راتوں کو روٹی کے تھیلے اپنی پشت پر رکھ دیتے تھے اور محتاجوں کے گھروں کا رخ کرتے تھے اور کہتے تھے: رازداری میں صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے، ان تھیلوں کو لادنے کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر نشان پڑ گئے تھے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو غسل دیتے ہوئے وہ نشانات آپ کے بدن پر دیکھئے گئے۔[37] ابن سعد روایت کرتا ہے: جب کوئی محتاج آپ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ فرماتے: "صدقہ سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تک پہنچ جاتا ہے"۔ [38]
    ایک سال آپ(ع) نے حج کا ارادہ کیا تو آپ کی بہن سکینہ بنت الحسین(ع) نے ایک ہزار درہم کا سفر خرچ تیار کیا اور جب آپ حرہ کے مقام پر پہنچے تو وہ سفر خرچ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور امام(ع) نے وہ محتاجوں کے درمیان بانٹ دیا۔ [39]
    آپ کا ایک چچا زاد بھائی ضرورتمند تھا اور آپ راتوں کو شناخت کرائے بغیر آپ کو چند دینار پہنچا دیتے تھے اور وہ شخص کہتا تھا: "علی ابن الحسین" قرابت کا حق ادا نہیں کرتے خدا انہیں اپنے اس عمل کا بدلہ دے۔ امام(ع) اس کی باتیں سن کر صبر و بردباری سے کام لیتے تھے اور اس کی ضرورت پوری کرتے وقت اپنی شناخت نہیں کراتے تھے۔ جب امام(ع) کا انتقال ہوا تو وہ احسان اس مرد سے منقطع ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ وہ نیک انسان امام علی بن الحسین(ع) ہی تھے؛ چنانچہ آپ کے مزار پر حاضر ہوا اور زار و قطار رویا۔[40]
    ابونعیم رقمطراز ہے: امام سجاد(ع) نے دو بار اپنا پورا مال محتاجوں کے درمیان بانٹ دیا اور فرمایا: خداوند متعال مؤمن گنہگار شخص کو دوست رکھتا ہے جو توبہ کرے۔[41] ابو نعیم ہی لکھتے ہیں: بعض لوگ آپ کو بخیل سمجھتے تھے لیکن جب دنیا سے رحلت کرگئے تو سمجھ گئے کہ ایک سو خاندانوں کی کفالت کرتے رہے تھے۔[42] جب کوئی سائل آپ کے پاس آتا تو آپ فرماتے تھے: آفرین ہے اس شخص پر جو میرا سفر خرچ آخرت میں منتقل کررہا ہے"۔ [43]

    غلاموں کے ساتھ آپ کا طرز سلوک

    امام سجاد(ع) کے تمام تر اقدامات دینی پہلوؤں کے ساتھ سیاسی پہلؤوں کے حامل بھی ہوتے تھے اور ان ہی اہم اقدامات میں سے ایک غلاموں کی طرف خاص توجہ سے عبارت تھا۔ غلاموں کا طبقہ وہ طبقہ تھا جو خاص طور پر خلیفہ دوم عمر بن خطاب کے بعد اور بطور خاص بنی امیہ کے دور میں شدید ترین سماجی دباؤ کا سامنا کررہا تھا اور اسلامی معاشرے کا محروم ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا۔ 
    امام سجاد(ع) نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرح اپنے [خالص] اسلامی طرز عمل کے ذریعے عراق کے بعض موالی کو اپنی طرف متوجہ اور اپنا گرویدہ بنا لیا اور معاشرے کے اس طبقے کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔

    سید الاہل نے لکھا ہے: امام سجاد(ع) ـ جنہیں غلاموں کی کوئی ضرورت نہ تھی ـ غلاموں کی خریداری کا اہتمام کرتے اور اس خریداری کا مقصد انہيں آزادی دلانا ہوتا تھا۔ غلاموں کا طبقہ امام(ع) کا یہ رویہ دیکھ کر، اپنے آپ کو امام(ع) کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ آپ انہیں خرید لیں۔ امام(ع) ہر موقع مناسبت پر غلام آزاد کرٹیتے تھے اور صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں آزاد شدہ غلاموں اور کنیزوں کا ایک لشکر دکھائی دیتا تھا اور وہ سب امام سجاد(ع) کے موالی تھے۔[44]

    امام سجاد اور واقعۂ کربلا

    کربلا میں

    امام سجاد(ع) واقعۂ کربلا میں اپنے والد امام حسین(ع) اور اولاد و اصحاب کی شہادت کے دن، شدید بیماری میں مبتلا تھے اور بیماری کی شدت اس قدر تھی کہ جب بھی یزیدی سپاہی آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرتے، ان ہی میں سے بعض کہہ دیتے تھے کہ "اس نوجوان کے لئے یہی بیماری کافی ہے جس میں وہ مبتلا ہے"۔[45]

    اسیری کے ایام

    عاشورا سنہ 61 کے بعد، جب لشکر یزید نے اہل بیت کو اسیر کرکے کوفہ منتقل کیا، تو ان میں سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے علاوہ امام سجاد(ع) نے بھی اپنے خطبوں کے ذریعے حقائق واضح کئے اور حالات کی تشریح کی اور اپنا تعارف [46] کراتے ہوئے یزید کے گماشتوں کے جرائم کو طشت از بام کردیا اور اہل کوفہ ملامت کی۔[47]
    امام سجاد(ع) نے کوفیوں سے خطاب کرنے کے بعد ابن زیاد کی مجلس میں بھی موقع پا کر چند مختصر جملوں کے ذریعے اس مجلس کے حاضرین کو متاثر کیا۔ اس مجلس میں ابن زیاد نے امام سجاد(ع) کے قتل کا حکم جاری کیا[48] لیکن حضرت زينب سلام اللہ علیہا نے مداخلت کرکے ابن زياد کے کا خواب شرمندہ تعبیر نہيں ہونے دیا۔
    اس کے بعد جب یزیدی لشکر اہل بیت(ع) کو "خارجی اسیروں" کے عنوان سے شام لے گیا تو بھی امام سجاد علیہ السلام نے اپنے خطبوں کے ذریعے امویوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
    جب آسیران آل رسول(ص) کو پہلی باری مجلس یزید میں لے جایا گیا تو امام سجاد(ع) کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ امام(ع) یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: تجھے خدا کی قسم دلاتا ہوں، تو کیا سمجھتا ہے اگر رسول اللہ(ص) ہمیں اس حال میں دیکھیں!؟[49] یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کے ہاتھ پاؤں سے رسیاں کھول دی جائیں۔[50]

    اسیری کے بعد

    امام سجاد(ع) نے واقعۂ کربلا کے بعد 34 سال بقید حیات رہے اور اس دوران آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی کوشش کی۔ 
    پانی پیتے وقت والد کو یاد کرتے تھے، امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسو بہاتے تھے۔ ایک روایت کے ضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول کہ امام سجاد(ع) نے (تقریبا) چالیس سال تک اپنے والد کے لئے گریہ کیا جبکہ دنوں کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے، افطار کے وقت جب آپ کا خادم کھانا اور پانی لا کر عرض کرتا کہ آئیں اور کھانا کھائیں تو آپ(ع) فرمایا کرتے: "فرزند رسول اللہ بھوکے مارے گئے! فرزند رسول اللہ(ص) پیاسے مارے گئے!"، اور یہی بات مسلسل دہراتے رہتے اور گریہ کرتے تھے حتی کہ آپ کے اشک آپ کے آب و غذا میں گھل مل جاتے تھے؛ آپ مسلسل اسی حالت میں تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے۔[51]

    امام کے معاصر تحریکیں

    امام سجاد علیہ السلام کے زمان میں اور کربلا کے واقعے کے بعد مختلف تحریکیں اٹھیں جن میں سے اہم ترین کچھ یوں ہیں:

    واقعۂ حَرَہ

    مفصل مضمون: ''واقعہ حرہ''
    کربلا کا واقعہ رونما ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد مدینہ کے عوام نے اموی حکومت اور یزید بن معاویہ کے خلاف قیام کرکے حرہ کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی قیادت جنگ احد میں جام شہادتنوش کرنے والے حنظلہ غسیل الملائکہ کے بیٹے عبد اللہ بن حنظلہ کررہے تھے اور اس قیام کا نصب العین اموی سلطنت اور یزید بن معاویہ اور اس کی غیر دینی اور غیر اسلامی روش کی مخالفت اور اس کے خلاف جدوجہد، تھا۔ امام سجاد(ع) اور دوسری ہاشمیوں کی رائے اس قیام سے سازگار نہ تھی چنانچہ امام(ع) اپنے خاندان کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکلے۔ امام زین العابدین(ع) کی نظر میں یہ قیام نہ صرف ایک شیعہ قیام نہ تھا بلکہ درحقیقت آل زبیر کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتا تھا، اور آل زبیر کی قیادت اس وقت عبد اللہ بن زبیر کررہا تھا اور عبد اللہ بن زبیر وہ شخص تھا جس نے جنگ جمل کے اسبابد فراہم کئے تھے۔ یہ قیام یزید کے بھجوائے گئے کمانڈر مسلم بن عقبہ نے کچل ڈالا جس نے اپنے مظآلم کی بنا پر مسرف کا لقب کما لیا۔ [52]

    توابین کا قیام

    مفصل مضمون: ''توابین کا قیام''
    توابین کی تحریک واقعۂ کربلا کے بعد اٹھنے والی تحریکوں سے ایک تحریک تھی جس کی قیادت سلیمان بن صُرَد خزاعی سمیت شیعیان کوفہ کے چند سرکردہ عمائدین کررہے تھے۔ توابین کی تحریک کا نصب العین یہ تھا کہ بنو امیہ پر فتح پانے کی صورت میں مسلمانوں کی امامت و قیادت کو اہل بیت(ع) کے سپرد کریں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے اس وقت علی بن الحسین(ع) کے سوا کوئی بھی نہ تھا جس کو امامت مسلمین سونپی جاسکے۔ تاہم امام علی بن الحسین(ع) اور توابین کے درمیان کوئی باقاعدہ سیاسی ربط و تعلق نہ تھا۔ [53]

    مختار کا قیام

    مفصل مضمون: ''مختار کا قیام''
    مختار بن ابی عبیدہ ثقی کا قیام، یزید اور امویوں کی حکمرانی کے خلاف واقعۂ عاشورا کے بعد تیسری بڑی تحریک کا نام ہے (جو واقعۂ حرہ اور قیام توابین کے بعد شروع ہوئی۔ اس تحریک کے امام سجاد(ع) کے ساتھ تعلق کے بارے میں بعض ابہامات پائے جاتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف سیاسی تفکرات کے لحاظ سے بلکہ محمد بن حنفیہ کی پیروی کے حوالے سے، اعتقادی لحاظ سے بھی مبہم اور اس کے بارے میں کوئی یقینی موقف اپنانا مشکل ہے۔ روایت ہے کہ جب مختار بن ابی عبیدہ ثقفی نے کوفہ کے بعض شیعیان اہل بیت(ع) کی حمایت حاصل کرنے کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کیا مگر امام(ع) نے خیر مقدم نہیں کیا۔[54]

    اصحاب

    ایک روایت کے ضمن میں منقول ہے کہ امام سجاد(ع) کو صرف چند افراد کی معیت حاصل تھی: سعید بن جبیر، سعید بن مسیب، محمد بن جبیر بن مطعم، یحیی بن ام طویل، ابو خالد کابلی.[55] 
    شیخ طوسی، نے امام سجاد(ع) کے اصحاب کی مجموعی تعداد 173 بیان کی ہے۔ [56] 
    امام سجاد(ع) شیعیان اہل بیت(ع) کی قلت کا شکوہ کرتے تھے اور فرماتے تھے مکہ اور مدینہ میں ہمارے حقیقی پیروکاروں کی تعداد 20 افراد سے بھی کم ہے۔ [57]

    تقیہ

    مفصل مضمون: ''تقیّہ''
    اموی  علوی تعلق کی کیفیت کے پس منظر کے پیش نظر امام سجاد(ع) کو اموی حکمرانوں کی شدید بدگمانی کا سامنا تھا اور امام(ع) کا کوئی معمولی سا کام بھی خطرناک نتائج پر منتج ہوسکتا تھا اور فطری سی بات تھی کہ اس قیمت پر اس قسم کے اقدامات کرنا مناسب نہ تھا۔ اہم ترین دینی اور سیاسی اصول جس کے سائے میں امام سجاد(ع) زندگی بسر کررہے تھے وہ تھا: "تقیّہ"۔ 
    امام سجاد(ع) نہایت دشوار حالات میں زندگی بسر کررہے تھے اور آپ کے پاس تقیہ کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اصولی طور پر یہی تقیہ ہی ہے جس نے اُس زمانے میں شیعیان آل رسول(ص) کو تحفظ دیا۔ 
    روایت ہے کہ ایک شخص نے امام سجاد(ع) کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا: زندگی کس طرح گذر رہی ہے؟ امام(ع) نے جواب دیا: 
    "زندگی اس طرح سے گذار رہے ہیں کہ اپنی قوم کے درمیان ویسے ہی ہیں جیسے کہ بنی اسرائیل آل فرعون کے درمیان تھے، ہمارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے ہیں ہماری عورتوں کو زندہ رکھ لیتے ہیں؛ لوگ ہمارے بزرگ اور ہمارے سید و سردار پر سبّ اور دشنام طرازی کرکے ہمارے دشمنوں کی قربت حاصل کرتے ہیں؛ اگر قریش دوسرے عربوں کے سامنے فخر کرتے ہیں کہ رسول اللہ قریش میں سے تھے اور اگر عرب فخر عجم پر تفاخر کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ عرب تھے اور اگر قریش اس حوالے سے اپنے لئے فوقیت اور برتری کے قائل ہیں تو تو ہم اہل بیت کو قریش پر برتر ہونا چاہئے اور ہمیں ان کے سامنے اس فضیلت پر فخر کرنا چاہئے کیونکہ محمد(ص) ہم اہل بیت میں سے ہیں۔ مگر انھوں نے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اور ہمارے لئے کسی بھی حق کے قائل نہيں ہیں۔ اگر تم نہيں جانتے کہ زندگی کس طرح گذر رہی ہے تو جان لو کہ زندگی اس طرح گذر رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا"۔ راوی کہتا ہے کہ امام(ع) اس طرح سے بات کررہے تھے کہ صرف قریب بیٹھے ہوئے افراد سن سکیں۔[58]

    آثار اور کاوشیں

    حدیث امام سجاد(ع) کی التجا بدرگاہ پروردگار: "اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر"۔
    بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ و کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ و زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ [59]

    صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجاد(ع) کی کاوشوں میں سے ہیں۔ [60]
    صحیفہ سجادیہ، امام سجاد(ع) کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کامله، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔
    رسالۃ الحقوق بھی امام سجاد علیہ السلام سے منسوب رسالہ ہے جو روایت مشہورہ کے مطابق 50 حقوں پر مشتمل ہے اور زندگی میں ان کو ملحوظ رکھنا ہر انسان پر لازم ہے۔ پڑوسیوں کا حق، دوست کا حق، قرآن کا حق، والدین کا حق اور اولاد کا حق، ان حقوں میں شامل ہیں۔[61]
    • Blogger Comments
    • Facebook Comments

    0 comments:

    Post a Comment

    Item Reviewed: حضرت امام زین العابدین علیہ السلام Rating: 5 Reviewed By: Unknown
    Scroll to Top