اہل سنت کے تمام مفسرین نے اعتراف کیا ہے کہ جس وقت آیہ کریمہ ،«إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا» (۱) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے امیر المومنین علی،حضرت فاطمہ زھر، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو اکٹھا کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر عرض کی ؛«اللهم ان هولاء اهل بیتی».
اہل سنت کی روایات میں تلاش بسیار کے باوجود ،صدیقہء طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کے خلاف کسی طرح کی کوئی بات یا ان کی ذات پر نکتہ چینی نہیں ملتی ،بلکہ سب نے حضرت کا احترام کیا اور حضرت کی مدح سرائی کی ہے اور حضرت کے وجود مبارک پر کوئی اعتراض یا سوال نہیں اٹھایا ہے ۔یہاں تک کہ بعض لکھنے والے ،پیغمبر کی رحلت کے بعد کے تلخ واقعات ،اور حضرت کی نسبت توہین اور امت اسلامی کی بے وفائی اور کوتاہی کے سلسلے میں جو اس نے اہل بیت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سلسلے میں برتی تھی اس سے خاموش نہیں رہ سکے ۔
رسول اعظم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پارہء جگر حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)کی شہادت کے ایام میں حوزہ نیوز ایجینسی کے نامہ نگار نے حجۃ الاسلام و المسلمیں جعفر طبسی سے کہ جو حوزہ علمیہ قم کے محققین میں سے ہیں اور تفسیر ، فقہ روایت اور رجال میں بہت ساری تالیفات کے مولف ہیں اسی طرح شبھہ شناسی اور شبھات کا جواب دینے میں مہارت رکھتے ہیں ، ملاقات کی اور منابع اہل سنت میں حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے مقام و مرتبے کے بارے میں گفتگو کی :
استاد طبسی نے سنیوں کے نامور علماء کی تین اہم روایتوں سے استناد کرتے ہوئے حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کی شان و منزلت اور ان کے رتبے کو آشکارا کیا اور بعض شبھات کے اوپر خط بطلان کھینچ دیا ۔
فرشتوں کا حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کے مرتبے سے آگا ہونا ،
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیلے آسمان کے نیچے کوئی ایک شخص بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بقدر فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کو نہیں پہچانتا تھا اور یہ چیز اپنی جگہ پر مستدل اور ثابت ہے ۔
جناب حاکم نیشا پوری (متوفی۴۰۵ )کہ جو اہل سنت کے ایک معروف دانشمند شمار ہوتے ہیں ،اپنی کتاب ،المستدرک علی الصحیحین، کی ج۳ ص۱۱۶ حدیث ۴۷۶۴ میں حذیفہ سے نقل کرتے ہوئے ،کہ جو ایک صحابی تھے ،حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ : « نَزَلَ مَلَكُ مِنَ السَّمَاءِ فَاسْتَأْذَنَ اللَّهَ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ، لَمْ يَنْزِلْ قَبْلَهَا. فَبَشَّرَنِي أَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ » ،یعنی ایک فرشتے نے خدا سے اجازت لی کہ وہ زمین پر آئے اور مجھے سلام کرے ،کہ یہ فرشتہ اس سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آیا تھا ۔اس نے مجھے خوشخبری سنائی کہ فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں ۔
اس روایت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ جناب حاکم نے اس کو نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے ،اسی طرح ذھبی کہ جس کی معمولا کوشش یہ ہوتی ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) سے مربوط روایات کو جہاں تک ممکن ہو ضعیف قرار دے ،وہ بھی کہتا ہے کہ یہ حدیث ،درست حدیث ہے اور اس نے اس کی تائید کی ہے ۔پس اس حدیث کی روشنی میں کہ جس کو بزرگان اہل سنت میں سے دو افراد نے بیان کیا ہے اور صحیح مانا ہے ،کائنات کی کوئی عورت بھی فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے مقام و مرتبے تک نہیں پہونچ سکتی اور اسلام کی اس عظیم خاتون کے لیے یہ بڑی عظیم منزلت ہے۔
ام المومنین حضرت عایشہ کا بیان۔
پھر حاکم نیشا پوری ، اسی کتاب کے ص ۱۱۹ حدیث ۴۷۷۵ میں ام المومنین حضرت عایشہ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ؛ «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ كَلَامًا وَحَدِيثًا مِنْ فَاطِمَةَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ رَحَّبَ بِهَا، وَقَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَقَبَّلَهَا وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ»؛یعنی خواتین میں سے کوئی ایک بھی لہجے اور سخن کے اعتبار سے فاطمہ کے برابر پیغمبر کے مشابہ نہیں تھی۔جب بھی حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا)آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں پیغمبر ان کا استقبال کرتے تھے اور سراپا ان کی تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے ،فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔
روایت کا نکتہ؛ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنے بغل میں بھی بٹھا سکتے تھے ،پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں ایسا نہ کر کے اپنی جگہ ان کو دیتے تھے ؟
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرگز عبث اور بےہودہ کام نہیں کرتے تھے اور نہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ایسا کیا ۔آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کام با معنی بھی ہے اور پیغام کا حامل بھی ،گویا آنحضرت اپنی بیٹی کو اپنی جگہ بٹھانا چاہتے تھے اور عالم اسلام کے اس بے مثل چہرے سے لوگوں کو آشنا کرنا چاہتے تھے ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل پدری جذبات اور احساسات کا نتیجہ نہیں تھا ،بلکہ مسئلہ اس سے کہیں بڑا اور بہت اہم تھا فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو نبوت و رسالت کی جگہ پر بٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ میرے تن کا ٹکڑا ہے
بلا شک پیغمبر غیب کا علم رکھتے تھے اور مستقبل کی روز روشن کی طرح پیشین گوئی کرتے تھے ۔وہ امت کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ :اے لوگو فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا احترام میرا احترام ہے اور فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا غضب میرا غضب ہے ۔یہ اہم نکتہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)کے ساتھ ایسا اچھا برتاو کرتے تھے۔
قرآن میں حضرت زہراء کا مقام،
اہل سنت کے تمام مفسرین نے اعتراف کیا ہے کہ جس وقت آیہ کریمہ ،«إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا» (۱) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے امیر المومنین علی،حضرت فاطمہ زھر، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو اکٹھا کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر عرض کی ؛«اللهم ان هولاء اهل بیتی».
بہت ساری روایات میں وارد ہوا ہےکہ ام سلمی اس واقعے کو دیکھ رہی تھیں ۔انہوں نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی:یا رسول اللہ! کیا میں بھی اس گروہ کا حصہ ہوں ؟حضرت نے فرمایا:نہیں آپ میری بیوی ہیں اور یہ میرے اہل بیت ہیں ۔یہ ایک اہم نکتہ ہے یعنی پیغمبر کی بیویاں ہر گز پیغمبر کے اھل بیت اور ان کی عترت میں شمار نہیں ہوتیں ۔
مفسرین اہل سنت اعتراف کرتے ہیں :آیہء مباہلہ میں نساءنا ، فاطمہ زہراء ہیں ۔
ان دنوں اور راتوں میں کہ جو اسلام کی اس عظیم خاتون کی شہادت سے متعلق ہیں،ہمیں اس نکتے پر خوب توجہ دینی چاہیے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت اور ان کی عترت میں سے ہیں ۔آیہء مباہلہ میں نساءنا سے منظور اور مقصود تمام اہل سنت اور ان کے مفسرین کے اعتراف کے مطابق ،ایک ذات ہے اور وہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) ہیں ۔
خلیفہء اول کی بیٹی کی زبانی فدک کا فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی ملکیت ہونا،
تیسری روایت۔حاکم نیشا پوری نے ،کتاب ،المستدرک علی الصحیحین،میں ص۱۲۴ حدیث ۴۸۰۰ ایک بار پھر پیغمبر کی زوجہ حضرت عایشہ سے نقل کیا ہے: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَصْدَقَ لَهْجَةً مِنْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الَّذِي وَلَدَهَا» یعنی میں نےفاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے زیادہ کسی کو سچا اور صاف گو نہیں دیکھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حاکم نیشا پوری اور ذھبی دونوں نے اس حدیث کو صحیح مانا ہے اور اس کی تصدیق کی ہے۔یعنی یہ حدیث صحیح ہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ فاطمہ سے زیادہ کوئی سچا اور صاف گو نہیں ہے ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ نیلے آسمان کے نیچے فاطمہ سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے ۔
اس حدیث کے مضمون میں دقت کے ساتھ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی بات کی سچائی کے اثبات کی پوزیشن میں ہے اور وہ بھی ہر جگہ اور ہر مقام پر ۔یعنی وہ ہر گز اور حتی ایک موقعے پر بھی جھوٹ نہیں بول سکتیں ۔
پس اس روایت کے مطابق، کہ جس کو حضرت عایشہ نے نقل کیا ہے ہر دعوی جو حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کریں وہ درست ہے ۔پس اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر سچی اور صاف گو فاطمہ کہیں کہ فلاں چیز میری ہے تو کہنا چاہیے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) جھوٹ نہیں بولتیں اور وہ سچ کہتی ہیں ۔
اب اگر حضرت صدیقہ (سلام اللہ علیہا)یہ دعوی کریں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں فدک مجھ کو دیا تھا؛تو اس روایت کی روشنی میں کہ حاکم نیشاپوری اور ذھبی نے جس کو صحیح مانا ہے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ فاطمہ سچ بول رہی ہیں اور جھوٹ نہیں بول رہی ہیں تو پھر ان کی تصدیق کرنی چاہیے اور ان سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔
بابا رحمۃ للعالمین کی جدائی۔
ذھبی حضرت فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیہا) کے حالات میں لکھتا ہے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنے باپ کی رحلت کے چھ ماہ بعد شہادت پائی اور ان چھ مہینوں میں ہر روز فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) پگھلتی تھیں ۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ ان باتوں کو ہم شیعوں نے نہیں لکھا ہے بلکہ ان کو ذھبی نے بیان کیا ہے کہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی رحلت کے بعد ہر روز پگھلتی تھیں اور جانتے ہیں کہ پگھلنے کا مطلب پانی ہونا ہے ۔ اب یہاں پر کیوں ذھبی نے خود سے سوال نہیں کیا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کیوں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پگھل رہی تھیں اور کس چیز کی وجہ سے پگھل رہی تھیں اور کون ان کو پگھلا رہا تھا؟
ایسے سوال جن کا کوئی جواب نہیں
- آیا جناب ذھبی نے بخاری کی روایت کو کہ اہل سنت کی صحیح ترین کتاب ہےفراموش کر دیا ہے کہ صدیقہء کبری (سلام اللہ علیہا) نے امیر المومنین (علیہ السلام)کو وصیت کی تھی کہ اے علی مجھے رات میں غسل دینا اور رات میں ہی دفن کرنا؟
- ذھبی صاحب کیا اپ نے اپنے آپ سے نہیں پوچھا کہ کیوں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) حضرت علی (علیہ السلام) سے وصیت کرتی ہیں کہ مجھے رات میں دفن کرنا ؟کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فاطمہ کے علاوہ کوئی اور بیٹی بھی تھی؟
خلاصہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے اور آپ کو اتنی اذیتیں دی تھیں کہ آپ نے مجبور ہو کر حضرت علی(علیہ السلام) سے اس طرح کی وصیت کی ۔
فاطمہ (سلام اللہ علیہا) تمام مسلمانوں کے لیے نمونہء عمل ہیں ۔
آخر میں اس نکتے کی یاد دہانی کرا دیں کہ حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کو مسلمانوں کی زندگی میں شامل ہونا چاہیے ۔وہ تمام مسلمانوں کے لیے نمونہء عمل ہیں ۔یہ درست ہے کہ شیعہ ان کا دوگنا احترام کرتے ہیں لیکن تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ آیہء :” قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ”(۲) کی بنا پر فاطمہ زہراء کو دوست رکھیں۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ صرف دوستی کافی نہیں ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ان کے اقوال و اعمال پر زیادہ دھیان دیں اور اپنی زندگی کو ایسی زندگی بنائیں جو فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کو پسند ہو ۔خاص کر میں عورتوں سے اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ اسلامی حجاب کی حفاظت کرتے ہوئے صدیقہء کبری (سلام اللہ علیہا) کی پیروی کریں ۔
بشکریہ شیعت میڈیا ……….
حوالہ :
(۱)سورہء احزاب آیہء۳۳
(۲)سورہء شوری آیہء۲۳
0 comments:
Post a Comment