فاطمہ(س)، رسول اللہ(ص)، اور حضرت خدیجہ(س) کی بیٹی،امام علی(ع) کی شریک حیات اور پنجتن آل عبا (اصحاب کساء) میں سے ایک ہیں اورشیعہ اثنا عشری کے نزدیک چودہ معصومین میں سے ایک ہیں۔ اہل تشیع کے امام دوئم اور امام سوئم آپ کے فرزند ہیں۔ آپ نجران کے نصارا کے ساتھ مباہلہ کے روز واحد خاتون تھیں جو رسول اللہ(ص) کے ہمراہ تھیں۔
آپ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور فیصلہ کن انداز سے ان کے مقابلے میں استقامت کی۔ غصب فدک اور امام علی(ع) کی خلافت کے دفاع کے سلسلے میں آپ(س) کا خطبۂ فدکیہ معروف و مشہور ہے۔ فاطمہ(س) پیغمبر(ص) کے وصال کے کچھ ہی عرصہ بعد سوئم جمادی الثانی سنہ 11ہجری قمری کو مدینہ میں انتقال کرگئیں اور خفیہ طور پر سپرد خاک کی گئیں۔
فاطمہ(س) کا شمار عرب کی بلیغ خواتین میں ہوتا ہے۔ ابن طیفور (متوفیٰ سنہ 280 ہجری) نے اپنی کتاب بلاغات النساء میں آپ کے خطبے نقل کئے ہیں۔ خاندان ابوطالب فدک کے بارے میں آپ کا خطبہ اپنے بچوں کو پڑھاتے اور سکھاتے تھے۔ [1]
نسب، کنیات، القاب
فاطمہ(س) صحابہ کی خواتین سے:
"ويحهم أنی زحزحوها عن رواسی الرسالة، وقواعد النبوة، ومهبط الوحی الأمين، والطبين بأمر الدنيا والدين، الا ذلک هو الخسران المبين"۔".
ترجمہ: وائے ہو ان پر، انہیں حق کو کیوں اپنے مرکز پر قرار نہیں پانے دیا؟ اور خلافتنبوت کے ستونوں پر استوار کیوں نہیں رہنے دی؟ جو کچھ نازل ہوا ہے، (عہدہ خلافت)،جبرائیل امین کی نگاہ ہے اور یہ عہدہ امام علی(ع) کے لئے مخصوص ہے جو امور دین و دنیا کے عالم ہیں۔ اور یقینا جو کچھ ان لوگوں نے کیا، وہ خسران مبین ہے۔
شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، ص 151
فاطمہ کے کئی القاب ہیں: زہرا، صدیقہ، طاہرہ، راضیہ، مرضیہ، مبارکہ، بتول وغیرہ .... آپ کا لقب "زہراء" دوسرے القاب سے زیادہ مشہور ہے اور کبھی آپ کے نام کے ساتھ آتا ہے (فاطمہ زہرا)۔ یا عربی ترکیب کی صورت میں آتا ہے: "فاطمۃ الزہراء"۔ زہرا جو عرف عام میں آپ کے نام کے طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے لغت میں زہرا کے معنی تابندہ، اور روشن وغیرہ کے ہیں۔ [2] فاطمہ(س) کی کئی کنیتیں ہیں جن میں مشہور ترین ام ابیہا، ام الائمة، ام الحسن، ام الحسین اور ام المحسن ہیں۔ [3]
ولادت اور شہادت
فاطمہ(س) کا مقام ولادت مکہ اور رسول اللہ(ص) کا گھر تھا تاہم آپ کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں شیعہ اور سنی تواریخ میں، اختلاف ہے۔ اہل سنت نے آپ کی ولادت کی تاریخ کو بعثت سے پانچ سال قبل اور کعبہ کی تعمیر نو کا سال، قرار دیا ہے۔ .[4] لیکن محمد بن یعقوب کلینی نے اصول کافی میں لکھا ہے کہ سیدہ بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہوئی ہیں۔[5] یعقوبی لکھتا ہے: آپ کی عمر بوقت وفات [شہادت] 23 سال تھی۔[6] چنانچہ آپ کی ولادت کا سال رسول خدا(ص) کی بعثت کا سال ہونا چاہئے۔ یہ قول شیخ طوسی سے مطابقت رکھتا ہے جن کا کہنا ہے کہ سیدہ کی عمر ہجرت کے پانچ مہینے بعد علی(ع) کے ساتھ نکاح کے وقت 13 سال تھی۔[7]
شیعہ اور سنی منابع میں حضرت فاطمہ(س) کے حمل کے بارے میں بعض روایات نقل ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ [[رسول اللہ(ص) نے اللہ کے حکم پر 40 راتوں تک خدیجہ(س) سے دوری اختیار کی اور 40 شب عبادت اور 40 روز روزہ داری اور اس کے بعد معراج کے آسمانی سفر پر جانے اور بہشتی طعام اور بہشتی میوے تناول کرنے کے بعد خدیجہ کے پاس آئے اور فاطمہ(س) کا نور خدیجہ(س) کے وجود میں مستقر ہوا۔[8]
امام علی(ع) نے فاطمہ(س) کی تدفین کے بعد قبر نبی(ص) سے مخاطب ہوکر: اے رسول خدا| فاطمہ کے بعد آسمان و زمین بدصورت معلوم ہوتے ہیں، اور کبھی بھی میرے دل کا غم ہلکا نہیں ہورہا ہے۔ میری آنکھیں نیند سےنا آشنا ہیں اور میرا دل سوز غم سے جل رہا ہے، جب تک کہ خدا مجھے آپ کے جوار میں بسا دے۔زہرا(س) کا انتقال ایک دھچکا تھا جس نے میرے دل کو تھکا دیا اور میرے غم کو پیہم بنایا؛ اور کس قدر جلد اس نے ہمارے اجتماع کو انتشار سے دوچار کیا۔ میں خدا ہی سے شکایت کرتا ہوں اور آپ کی بیٹی کو آپ کے سپرد کرتا ہوںوہ آپ کو بتا دیں گی کہ آپ کی امت نے ان پر کیا مظالم ڈھا دیئے۔ جو کچھ آپ جاننا چاہتے ہیں ان سے پوچھیں اور جو کہنا چاہتے ہیں ان سے کہہ دیں! تا کہ وہ اپنے دل کے راز آپ کے لئے کھول دیں، اور جو خون انھوں نے پی لیا ہے وہ باہر آجائے اور خدا ـ جو بہترین قاضی اور حکم کرنے والا ہے ـ ان اور ظالموں کے درمیان فیصلہ کرے...خدا گواہ ہے کہ آپ کی بیٹی خفیہ طور پر دفنائی جارہی ہیں۔ اب آپ کے وصال کے چند ہی روز گذرے ہیں، اور آپ کا نام ابھی زبانوں سے محو نہيں ہوا ہے کہ ان کا حق لوٹ کر لے گئے اور ان کی میراث کو کھا گئے [9]
شیعہ اور سنی منابع کا اتفاق ہے کہ فاطمہ(س) سنہ 11 ہجری میں دنیا سے رخصت ہوئیں؛ تا ہم آپ کے وصال کے مہینے اور دن میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے؛ چنانچہ بعض نے کہا ہے کہ فاطمہ(س) والد رسول اللہ(ص) کے وصال کے 24 روز بعد انتقال کرگئیں اور بعض کا کہنا ہے کہ آٹھ مہینوں تک زندہ رہيں۔ مشہور شیعہ قول یہ ہے کہ آپ والد کے وصال کے بعد تقریبا تین مہینوں تک زندہ تھیں۔[10] اور چونکہ رسول اللہ(ص) 28 صفر کو وصال کرگئے ہیں چنانچہ یہ تاریخ 3 جمادی الثانی سے مطابقب رکھتی ہے۔[11]
حضرت فاطمہ(س) کی تاریخ ولادت میں اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کی عمر کے بارے میں اختلاف رائے ہے، اور مؤرخین نے آپ کی عمر 18 سے 35 برس تک ذکر کی ہے۔ اگر آپ کی ولادت جمادی الثانی سنہ 5 بعد از بعثت ہو اور شہادت 11 ہجری ہو تو ان دو تاریخوں کا درمیانی عرصہ اٹھارہ سال اور چند مہینے، ہوگا؛ جو امام محمد باقر(ع) اور امام جعفر صادق(ع) سے مروی معتبر روایت میں مذکور ہے۔ [12]
بچپن کا دور
فاطمہ(س )، اپنے والد رسول خدا(ص) کے گھر میں، آپ(ص) کی دینی تعلیم و تربیت سے فیض یاب ہوکر پروان چڑھیں۔ [13] آپ(س) کے بچپن کا دور ـ جو اسلام کی پیشرفت اور مسلمانوں کے خلافمشرکین کے شدید دباؤ کا دور تھا در حقیقت یہ دور مسلمانوں کے لئے دشواریوں اور آزمائشوں کا دور تھا۔[14]، شعب ابی طالب نامی خشک اور سلگتے ہوئے درے میں معاشی اور سماجی ناکہ بندی کا دور تھا جہاں پر آپ کو اپنے خاندان کے ہمراہ، بھوک، پیاس اور رنج و مشقت کا سامنا تھا۔ اسی دور میں آپ کے عزیزوں کے وصال کا دور بھی آیا: آپ کی والدہ خدیجہ(س) نیز آپ کے والد رسول اللہ(ص) کے چچا ابوطالب(ع) ـ جو اس دور میں رسول خدا(ص) کے اہم ترین حامی و کفیل تھاـ[15] یہی دور تھا جب رسول خدا(ص) کی مسلسل حمایت اور دلجوئی کی بنا پر، آپ(ص) نے فاطمہ(س) کو (باپ کی ماں) کا لقب عطا کیا جو رسول اللہ(ص) کے نزدیک آپ(س) کی قدر و منزلت کی نشاندہی کرتی ہے۔[16]
اسی دور میں مسلمانوں نے مکہ سے یثرب (مدینۃ النبی) کی طرف ہجرت کی اور یہی ہجرت بعد میں مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز قرار پایا۔[17] جب پیغمبر(ص) مدینہ تشریف فرما ہوئے تو آپ کا خاندان بھی مدینہ روانہ ہوا۔ بلاذری لکھتا ہے: زید بن حارثہ اور ابو رافع فاطمہ(س) اور ام کلثوم کی معیت پر مامور تھے۔[18] لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ عباس بن عبدالمطلب آپ(س) کو مدینہ پہنچانے پر مامور تھے۔[19]
بہر صورت حضرت زہراء اور ام کلثوم اپنے سرپرست کی معیت میں سوار ہوئیں اور قافلہ عزیمت کے لئے تیار ہوا کہ اسی وقت رسول اللہ(ص) کا ایک دشمن حویرث بن نُقَیذ قریب آیا اور آپ کے اونٹ کو زخمی کر دیا۔ اونٹ بدک گیا اور فاطمہ اور ام کلثوم زمین پر آرہیں۔ ابن ہشام اور دوسرے مؤرخین نے اس حادثے میں فاطمہ(س) کو پہنچنے والے جسمانی نقصان کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے لیکن واضح ہے کہ آپ کو اس واقعے سے رنج و الم پہنچا ہے۔[20]
ان اسناد کے مقابلے میں طبقۂ اول کے مؤرخین میں یعقوبی نے لکھا ہے: علی بن ابی طالب(ع) آپ کو مدینہ لے آئے۔[21] شیعہ تالیفات یعقوبی کے قول کی تصدیق کرتی ہیں۔[22] ان میں سے ایک شیخ طوسی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب امالی طوسی/الامالی میں لکھا ہے: پیغمبر(ص) قباء میں ٹہرے ہوئے تھے اور مدینہ نہيں جارہے تھے اور کہہ رہے تھے: میں مدینہ میں داخل نہيں ہونگا جب تک کہ میرے چچا زاد بھائی (یعنی علی بن ابیطالب(ع) اور میری بیٹی بھی یہيں آجائیں۔ ان کے بقول اس ہجرت میں فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) کے علاوہ امام علی(ع) کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد، اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب ـ اور ایک قول کے مطابق ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب ـ بھی امام علی(ع) کے ہمراہ تھیں۔[23]
ازدواج
فاطمہ(س) کا رشتہ مانگنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور بہت سے اکابرین اور اصحاب رسول(ص) منجملہ عمر، ابوبکر، عبدالرحمن بن عوف وغیرہ نے فاطمہ(س) کا رشتہ مانگا، لیکن رسول اللہ(ص) نے ان کا رشتہ مسترد کیا۔[24] اور ان کو جواب دیتے ہوئے کہا: فاطمہ(ع) ابھی چھوٹی ہے، لیکن جب علی(ع) نے رشتہ مانگا تو آپ(ص) نے قبول کیا[25] اور فاطمہ(س) سے مخاطب ہوکر فرمایا: "زَوَّجْتُكِ أَقْدَمَ أُمَّتِي اسلاماً"۔ (ترجمہ: میں نے تمہیں اس امت کے اولین مسلمان کے ساتھ بیاہ دیا)۔[26] نیز بعض مہاجرین سے رسول اللہ(ص) سے فاطمہ(س) کا رشتہ مانگا۔[27] اور آپ(ص) نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ کی شادی بیاہ کا اختیار اللہ کے پاس ہے نہ کسی اور کے پاس، جو وہ چاہے گا وہی کرے گا اور میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں۔ (إني انتظر بها القضاء).[28]
علی(ع) کے ساتھ فاطمہ(س) کی شادی سنہ دو ہجری کو [مدینہ] میں [29] ہوئی۔ بنت پیمبر(ص) کا مہر 400 درہم، یا کچھ زیادہ یا کچھ کم، تھا کہ علی(ع) نے اپنا کچھ اثاثہ بیچ کر یہ رقم حاصل کی۔ اب اس میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ شیئے کیا تھی جو آپ(ع) نے فروخت کردی؟ بعض مؤرخین کا کہنا ہے وہ کہ آپ(ع) کی زرہ تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ دنبے کی کھال تھی، یمانی کرتا تھا یا پھر اونٹ تھا؛ جو کچھ بھی تھا فروخت ہوا اور امام(ع) نے اس کی قیمت وصول کرکے رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر کردی۔ رسول اللہ(ص) نے گنے بغیر، کچھ رقم بلال کے حوالے کرکے فرمایا: جاؤ یہ رقم دے کر میری بیٹی کے لئے خوشبو (عطریات) خریدو! اس کے بعد باقی ماندہ رقم ابوبکر کو دی اور فرمایا: یہ رقم دے کر میری بیٹی کے لئے اشیائے ضرورت فراہم کردو۔ عمار یاسر اور اصحاب میں سے چند دیگر افراد کو ابوبکر کے ساتھ روانہ کیا تا کہ وہ ابوبکر کی صوابدید پر زہراء(س) کا جہیز تیار کریں۔ شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں نقل کی ہے:
ایک کرتا، قیمت 7 درہم، ایک مقنعہ یا دو پٹا 4 درہم، خیبر کی تیار کردہ عبا، کھجور کے پتوں سے بنی چارپائی، دو بچھونے (گدیاں) جن کا بیرونی کپڑا موٹے کتان کا تھا اور ایک کھجور کے ریشوں سے اور دوسری بھیڑوں کی اون سے بھرا ہوئی تھی۔ طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکئے جنہیں اِذخِرِ (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل بھی ہے) سے پر کیا گیا تھا۔ اون کا ایک پردہ، ہَجَر میں بنی ہوئی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مقصود بحرین کا مرکز ہے۔ نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)، ایک دستی چکی (دستاس)، تانبے کا طشت، چمڑے کا ایک مشکیزہ، لکڑی کا بنا ایک کاسہ (یا ڈونگا)، دودھ دوہنے کے لئے ایک گہرا پیالہ، پانی کے لئے ایک مشک، ایک مِطہَرَہ (لوٹا یا صراحی جس کو طہارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا، مٹی کے کئے مٹکے یا جام۔[30]
شادی کے چند ہی روز گذرے تھے اور فاطمہ(س) کی دوری رسول اللہ(ص) کے لئے مشکل ہورہی تھی کیونکہ فاطمہ(س) برسوں سے آپ کے ساتھ تھیں اور خدیجہ(س) کی یاد آپ کے لئے تازہ کیا کرتی تھیں؛ وہ خدیجہ جن کے وصف میں آپ نے فرمایا تھا کہ "خدیجہ کی جگہ میرے لئے کون پر کرسکے گا؟! جس دن لوگوں نے مجھے جھٹلایا انھوں نے میری تصدیق کی اور جس دن سب نے مجھے چھوڑ دیا انھوں نے اللہ کے دین کو اپنے ایمان اور اپنی دولت سے مدد و تقویت پہنچائی"۔ چنانچہ آپ نے سوچا کہ دلہن اور دولہا، دونوں کو اپنے گھر میں جگہ دیں۔ آپ کی خواہش تھی کہ خدیجہ کی یادگار ہر وقت آپ کے قریب ہی ہو، لیکن اب وہ علی(ع) کی زوجہ ہیں، اور انہیں علی(ع) کے گھر میں رہنا چاہئے، اگر ایک کمرہ اپنے گھر کے قریب ان کے لئے تعمیر کرائیں تو آپ(ص) آسودہ خاطر ہونگے، لیکن ممکن ہے کہ مدینہ کے مسلمانوں کو زحمت اٹھانی پڑے۔
آخر کار آپ نے انہیں اپنے گھر میں جگہ دینے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کام دشوار ہے کیونکہ اس وقت دو خواتین آپ کے گھر میں بود و باش رکھتی ہیں: سودہ اور عائشہ۔ حارثہ بن نعمان نامی ایک صحابی کو اس مسئلے کی خبر ہوئی تو آکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں عرض کیا: "میرے تمام مکانات آپ کے قریب ہیں۔ میں بھی آپ کا ہوں اور جو کچھ بھی میرا ہے وہ بھی آپ کا ہے۔ خدا کی قسم! آپ اگر میرا مال مجھ سے لے لیں تو یہ مجھے کہیں زیادہ پسند ہے اس سے کہ آپ وہ میرے پاس رہنے دیں۔
پیغمبر(ص) نے فرمایا: خداوند متعال تمہیں جزائے خیر عطا کرے۔
اسی دن سے فاطمہ اور علی حارثہ کے ایک مکان میں منتقل ہوئے۔[31]
خاندانی زندگی
فاطمہ لباس اور کھانے پینے میں قناعت پیشہ تھیں اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتی تھیں اور گھریلو کام کاج کی ذمہ داری بھی دوسروں پر ڈالنے کی روادار نہ تھیں؛ کنویں سے پانی کھینچنے سے لے کر گھر میں جھاڑو لگانے، مکئی اور گندم پیسنے اور بچوں کی نگہداشت کرنے تک، سارے کام خود انجام دیتی تھیں؛ کبھی آپ ایک ہاتھ سے چکی گھماتیں اور دوسرے ہاتھ سے بچے کو سلاتی تھیں۔[32]
ابن سعد اپنی سند سے امام علی(ع) سے روایت کرتا ہے: جس دن میں فاطمہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا، ہمارا بچھونا بھیڑ کی وہ کھال تھی جس پر ہم راتوں کو سوتے تھے اور دن کے وقت اس پر اپنے آب کش (کنویں سے پانی کھینچے والے) اونٹ کو چارہ کھلاتے تھے اور اس اونٹ کے سوا ہمارا کوئی خدمت گزار نہ تھا۔[33]
علی(ع) نے بنی سعد کے ایک مرد سے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں اپنی اور فاطمہ کی ایک کہانی سناؤں؛ اور پھر فرمایا: فاطمہ اپنے والد کی نظروں میں محبوب ترین تھیں۔ آپ(س) نے میرے گھر میں اس قدر پانی (کنویں سے) کھینچا کہ مشک کی پٹی کا نشان آپ کے بدن پر رہ گیا؛ اور اس قدر چکی گھمائی کہ آپ کے ہاتھوں میں گھٹے پڑ گئے تھے؛ اور اس قدر گھر میں جھاڑو لگایا کہ مٹی کا رنگ آپ کے لباس پر رہ گیا۔[34]
مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول خدا(ص) فاطمہ(س) اور علی(ع) کے گھر تشریف لائے اور ان سے بہت و پیار و محبت کی اور فاطمہ(س) سے دریافت کیا: تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ سیدہ نے عرض کیا: بہترین شوہر ہیں۔۔۔ اس کے بعد فاطمہ(س) کی سفارش علی(ع) اور علی(ع) کی سفارش فاطمہ(س) سے فرمائی۔ علی(ع) فرماتے ہیں: خدا کی قسم! اس دن کے بعد ـ جب تک فاطمہ(س) زندہ تھیں میں نے کبھی بھی ایسا کام نہيں کیا جو فاطمہ(س) کی ناراضگی کا سبب بنے اور فاطمہ(س) کو کسی کام پر مجبور نہيں کیا، اور فاطمہ(س) نے بھی کبھی مجھے ناراض نہیں کیا اور کسی بھی کام میں میری نافرمانی نہيں کی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی میں ان کی طرف دیکھتا میرا رنج و غم دور ہوجاتا تھا۔[35]
فاطمہ(س) نے علی(ع) کے ساتھ مشترکہ زندگی میں اندرون خانہ ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی تھیں اور کھانا تیار کرتی تھیں، روٹی پکاتی تھیں اور علی(ع) نے بیرون خانہ ذمہ داریاں سنبھالی تھیں اور ایندھن اور ضروریات زندگی فراہم کرتے تھےـ[36]
والد کی مدد
جنگ احد کے بعد فاطمہ(س) کو خبر دی جاتی ہے کہ آپ کے والد جنگ میں زخمی ہوئے ہیں؛ ایک پتھر آپ کے چہرہ مبارک پر لگا ہے اور آپ کا چہرہ خون آلود ہوگیا ہے۔ آپ خواتین کے ایک گروہ کے ساتھ اٹھتی ہیں اور پانی اور کھانے پینے کی اشیاء اپنی پشت پر لادتی ہیں، اور میدان جنگ میں پہنچتی ہیں۔ خواتین زخمیوں کو پانی دیتی ہیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی ہیں اور فاطمہ(س) اپنے والد رسول خدا(ص) کے زخموں کی صفائی کرتی ہیں۔[37] خون بند نہیں ہوتا۔ چٹائی کا ایک ٹکڑا جلا دیتی ہیں اور اس کی خاکستر زخم پر رکھ دیتی ہیں تا کہ خون کا بہاؤ تھم جائے۔[38] اس جنگ میں رسول خدا(ص) کے چچا حمزہ سمیت 70 مسلمان شہید ہوئے۔ واقدی کے مطابق اس کے بعد فاطمہ(س) ہر دو یا تین بعد احد پہنچ جاتی تھیں اور شہداء کے مزاروں پر گریہ اور ان کے لئے دعا کرتی تھیں۔[39]
اولاد
پیغمبر(ص) کی بیٹی کے علی(ع) سے کئی فرزند ہیں: دو بیٹے حسن(ع) اور حسین(ع) اور دو بیٹیاں ہیں زینب(س) اور ام کلثوم۔ کسی بھی صاحب قلم نے ان بیٹوں اور بیٹیوں کے وجود میں شک نہيں کیا ہے۔ امام حسن(ع) ماہ مبارک رمضان سنہ 3 ہجری کی پندرہویں کو اور امام حسین(ع) شعبان کی چوتھی تاریخ کو دنیا میں آئے۔[40]
شیعہ تذکرہ نویسوں اور علمائے اہل سنت کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ دختر نبی(ص) کا ایک اور بچہ بھی تھا جس کا نام مُحَسَّن تھا۔ کتاب "نسب قریش" کے مؤلف مصعب زبیری (متوفیٰ 236 ہجری) نے مُحَسَّن کا ذکر نہيں کیا ہے؛ لیکن البلاذری (متوفیٰ 279 ہجری) لکھتا ہے: فاطمہ(س) نے علی(ع) کے لئے حسن، حسین اور محسن کو جنا۔ محسن بچپن میں گذر گئے۔[41] نیز وہ لکھتا ہے: حج مُحَسَّن پیدا ہوئے توپیغمبر(ص) نے فاطمہ(س) سے پوچھا: تم نے بچے کا نام کیا رکھا ہے؟ عرض کیا: حرب! تو فرمایا: اس کا نام مُحَسَّن ہے۔[42] کتاب "جمہرة انساب العرب" کا مؤلف علی بن احمد بن سعید الاندلسی (384-456) لکھتا ہے: محسن بچپن میں ہی گذر گئے۔[43]
شیخ مفید فاطمہ(س) سے علی(ع) کے فرزندوں کا یوں تذکرہ کرتے ہیں: حسن، حسین، زینب کبری اور زینب صغری ـ جن کی کنیت، ام کلثوم تھی۔[44] اور متعلقہ باب کے آخر میں لکھتے ہیں: اور شیعہ علماء میں سے بعض نے کہا ہے کہ فاطمہ(س) کا ایک فرزند رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد سقط ہوچکا ہے، اس بچے کو فاطمہ نے اس وقت محسن کا نام دیا تھا جب وہ ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔[45] طبری نے لکھا ہے: "مروی ہے کہ علی(ع) کا ایک مُحَسَّن نامی بیٹا بھی تھا جو بچپن میں گذر گیا"۔ سنی اور شیعہ منابع میں منقول ہے کہ یہ فرزند رحلت نبی(ص) کے بعد اختلافات اور تنازعات سے بھر پور ایام میں ان [جسمانی] مصائب کی وجہ سے سقط ہوا تھا جو دختر نبی(ص) پر وارد ہوئے۔[46]
فاطمہ(س) کا ابوبکر اور عمر سے ناراض ہونا
مفصل مضامین: فدک اور خطبۂ فدکیۂ
خطبۂ فدکیہ سے اقتباس؛ صحابۂ پیغمبر(ص) سے خطاب: "اطلع الشيطان رأسه من مغرزه صارخاً لکم فوجدکم لدعائه مستجيبين"۔ (ترجمہ:شیطان نے اپنی گھات سے سے سر باہر نکالا اور تمہیں اپنی جانب بلایا اور دیکھا کہ کس قدر عجلت سے تم نے اس کی بات سن لی اور کس قدر آسانی سے اسی کی جانب دوڑ چلے)۔[47]
پیغمبر(ص) کے وصال کے بعد ابوبکر نے فاطمہ(س) کی میراث (ارثی جائیداد) (میراث یا ارثی جائیداد یہاں عام ہے اور اس سے مراد ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو باپ کی طرف سے بچوں کو ملے خواہ وہ باپ کے زمانے میں ہی کیوں نہ ہو) [48] میں تصرف کا حکم جاری کیا۔ اور جب فاطمہ بنت رسول(ص) نے دعوی کیا کہ "میں پیغمبر(ص) کی بیٹی ہوں اور ہر دوسرے شخص کی طرح اپنے باپ کی میراث مجھے ملتی ہے تو ابوبکر نے کہا: "میں نے پیغمبر(ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "ہم انبیاء اپنے بعد کوئی ارث و میراث نہیں چھوڑا کرتے اور جو کچھ ہم اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے"۔ یہ سن کر فاطمہ(س) حیرت زدہ ہوئیں کہ پیغمبر(ص) نے کیونکر ایسی بات کہی ہے اور مجھے ـ جو آپ کی وارث ہوں اور علی(ع) جو رسول اللہ(ص) سے تم سب کی نسبت قریب تر تھے ـ کو اس کا علم تک نہیں ہے! اس بات پر فاطمہ(س) شدت کے ساتھ خلیفہ کے سامنے ڈٹ گئیں اور مسجد میں مہاجرین اور انصار کے اجتماع میں خطبہ خطبۂ فدکیہ دیا اور ارث اور ترکے کے حوالے سے قرآنی آیات کے حوالے سے ابوبکر کی شدید مذمت کی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے فاطمہ(س) سے مخاطب ہوکر فرمایا: "إنّ الله يغضب لغضبِك ويرضی لرضاك"۔.|ترجمہ= بےشک اللہ تمہارے غضبناک ہونے پر غضبناک ہوتا ہے اور تمہاری رضا پر راضی و خوشنود ہوتا ہے)۔ [49]
نہ صرف شیعہ علماء بلکہ بعض بڑے سنی علماء نے لکھا ہے کہ جب آیت "وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ"[50] (ترجمہ: اور قرابت دار کو اس کا حق عطا کرو)، تو آپ(ص) نے فدک فاطمہ(س) کو عطا کیا۔[51]
جیسا کہ صحیح بخاری میں منقول ہے جب ابوبکر نے فاطمہ(س) سے کہا کہ "ہم انبیاء کوئی ارث نہیں چھوڑا کرتے، اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے، فاطمہ(س) غضبناک ہوئیں اور ابوبکر سے روگرداں ہوئیں اور یہ روگردانی فاطمہ(س) کے وصال تک جاری رہی"۔[52] فاطمہ(س) کا غضب اورآپ کی ناراضگی اس لحاظ سے اہم ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے: "جس نے فاطمہ(س) کو ناراض اور غضبناک کیا اس نے مجھے ناراض اور غضبناک کیا ہے۔[53] علاوہ ازایں، فدک کے غاصبوں کو یہاں ایک دوسری مشکل کا بھی سامنا ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے فاطمہ کا دعوی جھٹلا دیا۔ اس مدعا کو جھٹلانا اس لحاظ سے جھٹلانے والوں کے لئے دشواری کا سبب بن گیا ہے کہ قرآن مجید آیت تطہیر کی نصّ کے مطابق فاطمہ(س) کو ہر پلیدی سے پاک و منزہ سمجھتا ہے۔ اور پلیدی میں جھوٹ بھی شامل ہے جو ضمنی طور پر آپ(س) سے منسوب کیا گیا۔
فدک کے بارے میں ایک تجزیہ
شہید آیت اللہ صدر کتاب فدک فی التاریخ میں مسئلۂ فدک کو ایک سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور [54] اور بیان کیا ہے کہ: حضرت زہرا(س) کی طرف سے فدک کا مسئلہ پیش کیا جانا در حقیقت اسلام اور کفر، ایمان و نفاق کے دو محاذوں کا اظہار اور نصّ اور شوری کا تقابل ہے۔ وہ اسی کتاب میں [55] فدک کو وقت کی حاکمیت کے خلاف ایک عظیم، انقلابی اور ہمہ جہت ہدف قرار دیتے ہیں جس (حاکمیت) کی بنیاد ابوبکر، عمر اور ابو عبیدہ جراح کی سہ رکنی جماعت نے رکھی تھی۔ شہید صدر بیان کرتے ہیں:[56] اگر حضرت زہراء(س) "نِحلہ" یا "میراث" کے طور زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کی درپے ہوتیں، تو یقینی طور پر حضرت علی(ع) کے حامیوں اور پیروکاروں میں سے کچھ افراد کو شہادت کی ادائیگی اور ثبوتوں کی تکمیل کے لئے ڈھونڈ لاتیں لیکن آپ کا مقصد کچھ اور تھا۔ اور انھوں نے زور دے کر کہا ہے:[57] حضرت زہرا(س) نے حاکمیت کے خلاف اپنی جد و جہد کو چھ مرحلوں ميں سر انجام دیا ہے: [58]
فدک وغیرہ پر مشتمل میراث کا مطالبہ کرنے کے لئے نمائندہ ابوبکر کر پاس بھجوانا اور فدک کو نحلہ اور بخشش (ہبہ) کے طور پر ظاہر کرنے سے قبل ارث اور ترکے کے طور پر ظاہر کرنا۔
براہ راست مداخلت اور ابوبکر کے ساتھ سخت لہجے میں بات چیت۔
وصال نبی(ص) کے دسویں روز مسجد النبی(ص) میں معروف تاریخی خطبہ۔
بیماری کے بستر پر مہاجرین و انصار کی خواتین کے لئے دو ٹوک خطبہ۔
ابوبکر اور عمر کے ساتھ غضب آلود اور مختصر بات چیت، اور ان سے اپنے غضب اور ناراضگی کا اظہار، جب وہ دونوں اپنے کئے پر معذرت کرنے آپ(س) کے گھر پر حاضر ہوئے تھے۔
آپ(س) کی معروف و تاریخی وصیت جس میں آپ نے اپنے مخالفین سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اپنے جنازے اور تدفین میں ان کی شرکت کی مخالفت کی ہے۔
شہید صدر اپنی اسی کتاب میں اس بات کے اسباب بیان کرتے ہیں کہ حاکمیت کے خلاف قیام کی بنیاد علی(ع) نے نہیں بلکہ فاطمہ(س) نے رکھی؛ لکھتے ہیں:[59] "حضرت زہراء(س) کے ہاتھوں قیام کا آغاز دو اہم اور مثبت عناصر کا حامل تھا: ایک اس قضیئے کا جذباتی پہلو تھا، کیونکہ فاطمہ(ص) رسول اللہ(ص) کی بیٹی تھیں اور عوامی جذبات ابھارنے اور رسول اللہ(ص) کے زمانے کی یادیں مجسم کرنے کے حوالے سے بیشتر قوت کی حامل تھیں؛ اور دوسرا اس کا سیاسی پہلو تھا کیونکہ اگر حضرت علی(ع) اس جدوجہد کو آغاز کرتے تو مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی اور مسلمانوں کی عصا ٹوٹ جانے اور حاکمیت کے خلاف مسلحانہ جنگ کا امکان بہت زیادہ تھا"۔ لگتا ہے کہ حضرت علی(ع) نے حتی خلافت اور اقتدار کے حصول کے بعد بھی جو فدک کے مسئلے پر کوئی اقدام نہيں کیا، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ فدک حاکمیت کے خلاف جدوجہد کی علامت تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اقتدار کو اہل افراد کے حوالے کرنا چاہئے اور اب جب اہل فرد اقتدار تک پہنچا ہے تو اس مقصد کے لئے کسی جدوجہد کی ضرورت باقی نہيں رہتی۔
عبادت
امام صادق اپنے آباء طاہرین کے حوالے سے حسن بن علی(ع) سے روایت کرتے ہیں:
میری والدہ جمعہ کی شب صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رہتی تھیں اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی تو مؤمن عورتوں وار مردوں کے لئے دعا کرتی تھیں لیکن اپنے لئے کچھ نہیں مانگتی تھیں؛ ایک دن میں نے عرض کیا: اماں جان! آپ اپنے لئے بھی دوسروں کی طرح دعا کیوں نہيں کرتی ہیں؟ فرمایا:
-
- بیٹا! ہمسایہ مقدم ہے۔[60]
جو تسبیحات تسبیحات فاطمہ(س) کے نام سے مشہور ہیں، وہ معتبر شیعہ اور سنی کتب اور دیگر اسناد میں منقول ہیں۔ جو لوگ اس سنت پر عمل کرنے کے پابند ہیں وہ ہر نماز کے بعد یہ تسبیحات پڑھتے ہیں: "34 مرتبہ اللہ اکبر، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ"۔[61] نیز سید بن طاؤس نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں بعض دعائیں حضرت فاطمہ(س) سے نقل ہوئی ہیں جوآپ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد بلا ناغہ پڑھتی تھیں۔ نیز بعض دوسری دعائیں بھی ان سے منقول ہیں جو بعض مشکلات اور دشواریوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ پر یہ دعائیں پڑھنا اور مستحبات ادا کرنا لازم سمجھتے ہیں وہ ان دعاؤں سے واقف ہیں[62] اہل سنت کے اکابرین میں سے حسن بصریکا کہنا ہے: "اس امت میں فاطمہ(س) سے زیادہ کوئی عابد نہيں آیا ہے، اس قدر نماز کے لئے قیام کیا کہ آپ کے پیر سوج گئے۔"[63]
شہادت اور وصیت
والد رسول اللہ(ص) کی دنیا سے رحلت، خاوند حضرت علی(ع) کی مظلومیت، حق کی تضییع ـ اور سب سے زيادہ اہم یہ رسول اللہ(ص) کے وصال کے چند ہی دنوں بعد مسلمانی کی سنت میں تبدیلیوں ـ نے ابتداء میں دختر رسول(ص) کی روح اور آخر کار جسم کو بہت زیادہ آزردہ کیا۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق، آپ والد رسول اللہ(ص) کے وصال سے قبل کسی قسم کی جسمانی بیماری میں مبتلا نہ تھیں؛ آپ کی بیماری کا آغاز ان واقعات کے بعد ہوا۔[64]
بیماری کے بستر پر فاطمہ(س) کے کلمات
حضرت زہراء(س) بیماری کے بستر پر تھیں جب بعض خواتین آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئیں اور آپ سے پوچھا: اے دختر رسول اللہ(ص)! آپ کیسی ہیں؟ بیماری کے ساتھ کیا کررہی ہیں؟ تو آپ نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیا:
- خدا کی قسم! میں تمہاری دنیا کو دوست نہيں رکھتی اور تمہارے مردوں سے بیزار ہوں! میں نے ان کا ظاہر و باطن آزما لیا اور جو کچھ انھوں نے کہا اس سے میں ناراض اور نا خوشنود ہوں؛ کیونکہ وہ کاٹ دینے کی صلاحیت کھودینے والی زنگ زدہ تلوار کی مانند ہیں، بظاہر آگے کی طرف بڑھنے والے مگر پیچھے کی طرف لوٹنے والے اور ظلمت زدہ اور ناقص افکار کے مالک ہیں۔ انھوں نے اپنے لئے خدا کا غضب خرید لیا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لئے باقی ہیں۔
- میں نے مجبوری کی بنا پر کام ان پر چھوڑ دیا اور انصاف کُشی کی بدنامی کو ان پر لاد لیا، نفریں ہے ان مکاروں پر اور دور رہيں ظالمین رحمت حق سے۔
- وائے ہو ان پر، انھوں نے حق کو اپنے مرکز پر کیوں مستقر نہيں ہونے دیا؟ اور خلافت کو نبوت کے ستونوں پر استوار کیوں نہيں ہونے دیا جو کچھ نازل ہوا وہ جبرائیل امین کی نگاہ ہے اور ان کا لایا ہوا عہدہ امام علی(ع)کے لئے مخصوص ہے جو امور دین و دنیا کے عالم ہیں۔ اور یقینا جو کچھ ان لوگوں نے کیا، وہ خسران مبین ہے؛ خدا کی قسم! انھوں نے علی(س) کو پسند نہيں کیا کیونکہ انھوں نے علی(ع) کی تلوار کی جلن محسوس کی اور ان کی استقامت کو قریب سے دیکھا۔ انھوں نے دیکھا (غزوات و سرایا میں] کہ کس طرح امام علی علیہ السلام|علی(ع)]] ان پر حملہ آور ہورہے ہیں اور دشمنان خدا کے ساتھ ساز باز نہيں کرتے۔
- خدا کی قسم! اگر وہ میدان میں آتے اور علی کو اس کام کی ذمہ داری سونپتے جو پیغمبر(ص) نے ان (علی) کے ذمے لگایا تھا، تو وہ انہيں بڑے پرسکون انداز سے صراط مستقیم کی طرف لے جاتے اور ہر شخص کا حق اسی کے سپرد کرتے، تا کہ کوئی نقصان نہ اٹھائے اور ہر شخص اپنا بویا ہوا پھل کاٹ لے۔ عدل و انصاف کے پیاسے ان کی عدل پسندی کے چشمے سے سیراب ہوتے، اور کمزور لوگ ان کی صولت کے سائے میں دلیر ہوجاتے۔ وہ اگر ایسا کرتے تو زمین و آسمان کی رحمتوں کے دروازے ان کی طرف کھل جاتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہيں کیا اور جو کچھ انھوں نے کیا بہت جلد اس کی سزا پائیں گے خداوند متعال انہيں عذاب سے دوچار فرمائے گا۔ آؤ! اور سنو!:
- حیرت ہےا!وقت بھی کس قدر پس پردہ عجائب کا حامل ہے؛ اور کیا کیا بازیچے یکے بعد دیگرے ظاہر کرتا ہے!، اور ہاں! تمہارے مردوں نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کیا عذر پیش کیا؟ دوست نما غدار، دوستوں کے حق میں ستمکار اور آخر کار اپنے ہی ظلم و ستم کے انجام سے دوچار!، انھوں نے سر کو چھوڑ دیا اور دم کا سہارا لیا، معمولی شخص کے پیچھے چلے اور عالم کا پوچھا تک نہیں! نفریں نادان لوگوں پر جو مفسد اور شر پسند ہیں، اور اپنی شرپسندی کو عمل صالح گردانتے ہیں۔
- وائے ہو ان پر۔ کیا جو لوگوں کو راہ راست کی طرف بلاتا ہے، پیروی اور اقتدا کی اہلیت رکھتا ہے یا وہ جو خود اس راستے کو نہيں جانتا؟ اس سلسلے میں تمہارا کیا فیصلہ ہے؟
- تمہارے رب کی قسم! جو کچھ انہيں کرنا چاہئے تھا کر بیٹھے۔ نوائیں اٹھیں اور فتنوں کا آغاز ہوا؛ اب لمحہ بار سوچیں تاکہ دیکھیں اور دیکھیں کہ کیا آشوب و فتنہ اٹھے گا اور کیا خونریزیاں ہونگی! زندگی کی شیرینیاں سب کے لئے زہر اور یہ وسیع عالم سب پر تنگ ہوجائےے گا۔ اس دن گھاٹا پانے والوں کے ہاتھ ہوا کے سوا کچھ نہ ہوگا اور آنے والے اپنے گذرے ہؤوں کے گناہوں کی سزا سے دوچار ہونگے۔
- اب تیار ہوجاؤ! کہ بلاؤں کی دھول اٹھا دی گئی اور غضب خدا کی شمشمیر انتقام کے غلاف سے باہر آئی ہے۔ وہ تمہیں تباہ کرنے تک چین سے نہيں رہنے دے گی، اس وقت افسوس کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔ وہ تمہارے اجتماع کو منتشر کرے گی اور تمہاری جڑیں اکھاڑ پھینکے گی۔ افسوس کہ تم حقیقت پسندی کی آنکھوں سے محروم ہو، ہم پر بھی کوئی تاوان اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ تم حق کو ناپسند کرتے ہو۔ [65]
تدفین اور اس موقع پر علی(ع) کے کلمات
شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ دختر رسول(ص) کی لاش رات کو دفنا دی گئی۔ [66] تاریخ یعقوبی میں منقول ہے کہ فاطمہ(س) کو رات کے وقت دفنایا گیا اور جنازے میں سلمان اور ابوذر اور ایک قول کے مطابق عمار کے سوا کوئی اور حاضر نہ تھا۔[67] امالی طوسی میں مروی ہے کہ چچا عباس بن عبدالمطلب نے امیرالمؤمنین(ع) کو تجویز دی کہ فاطمہ(س) کے لئے شاندار جلوس جنازہ کا اہتمام کیا جائے توامیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: فاطمہ(س) نے مجھے وصیت کی ہے کہ آپ کی تدفین کے مراسمات خفیہ انجام پائیں۔[68]
اہل سنت کے عالم ابن سعد نے بھی بعض روایتیں نقل کی ہیں کہ فاطمہ(س) کو رات کے وقت دفنایا گیا اور علی(ع) نے آپ کو دفن کیا۔[69] نیز بلاذری نے بھی اپنی دو روایتوں میں یہی کچھ لکھا ہے۔[70] نیز بخاری لکھتا ہے: "انہیں اپنے شوہر نے رات کے وقت دفن کیا اور اجازت نہ دی کی ابوبکر آپ کے جنازے میں حاضر ہوجائے۔[71]
کُلینی بزرگ شیعہ علماء اور محدثین میں سے ہیں اور ان کا انتقال چوتھی صدی ہجری کے ابتدائی برسوں میں ہوا ہے اور انھوں نے اپنی کتاب (الکافی) تیسری صدی ہجری کے نصف دوئم میں لکھی ہے۔ اور ان کی کتاب قدیم ترین شیعہ اسناد میں شمار کی جاتی ہے؛ وہ لکھتے ہیں: جب فاطمہ(س) کا وصال ہوا تو امیرالمؤمنین(ع) نے آپ خفیہ طور پر دفن کیا اور آپ کی قبر کے آثار مٹا دیئے اور اس کے بعد قبر نبی سے مخاطب ہوئے اور کہا:
یا رسول اللہ(ص)! میری طرف سے اور آپ کی بیٹی کی طرف سے ـ جو آپ کے دیدار کے لئے آئی ہیں اور آپ کے پہلو میں سو گئی ہیں ـ درود و سلام ہو آپ پر۔ خدا نے یہی ارادہ کیا کہ وہ دوسروں سے پہلے آپ سے آملیں۔ ان کے بعد میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور میں تحمل کی طاقت کھوچکا ہوں۔ لیکن جس طرح آپ کی جدائی پر میں نے صبر کا دامن تھاما، آپ کی بیٹی کے انتقال پر بھی صبر کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہيں ہے، کہ مصیبت کے وقت صبر، سنت ہے۔ یا رسول اللہ(ص)! آپ نے میرے سینے پر جان دی! میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو دفنا دیا! قرآن نے خبر دی ہے کہ زندگی کے آخر میں سب کی واپسی اللہ کی طرف ہے۔
-
- اب امانت اپنے مالک کو پہنچ گئی، زہرا(س) میرے ہاتھ سے نکل گئیں اور آپ کے پاس آچکیں۔ یا رسول اللہ(ص)! فاطمہ کے بعد آسمان و زمین بدصورت معلوم ہوتے ہیں، اور میرے دل کا غم ہلکا نہیں ہورہا ہے۔ میری آنکھیں نیند سےنا آشنا ہیں اور میرا دل سوز غم سے جل رہا ہے، جب تک کہ خدا مجھے آپ کے جوار میں بسا دے۔
-
- زہرا کا انتقال ایک دھچکا تھا جس نے میں دل کو تھکا دیا اور میرے غم کو پیہم بنایا؛ اور کس قدر جلد اس نے ہمارے اجتماع کو انتشار سے دوچار کیا۔ میں خدا ہی سے شکایت کرتا ہوں اور آپ کی بیٹی کو آپ کے سپرد کرتا۔
ہوںوہ آپ کو بتا دیں گی کہ آپ کی امت نے ان پر کیا مظالم ڈھا دیئے۔ جو کچھ آپ جاننا چاہتے ہیں ان سے پوچھیں اور جو کہنا چاہتے ہیں ان سے کہہ دیں! تا کہ اپنے دل کے راز آپ کے لئے کھول دیں، اور جو خون انھوں نے پی لیا ہے وہ باہر آجائے اور خدا ـ جو بہترین قاضی اور حکم کرنے والا ہے ـ ان اور ظالموں کے درمیان فیصلہ کرے.
-
- میں جو سلام آپ کو دے رہا ہوں، وداع ہے، ملال کی وجہ سے نہیں، اور شوق کی رو سے ہے نہ کہ سستی اور تھکاوٹ کی وجہ سے۔ اگر جارہا ہوں، اس لئے نہیں جا رہا کہ میں غمزدہ اور میری جان تھکی ہوئی ہے اور اگر ٹہرتا ہوں اس لئے نہيں ٹہرتا کہ میں اللہ کے وعدے پر بدگمان ہوں۔ اور چونکہ اس نے صبر کرنے والوں کو وعدہ دیا ہے میں اس کی پاداش کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہوں کیونکہ جو کچھ بھی ہے اسی کی طرف سے ہے اور صبر مستحسن ہے۔
-
- اگر ستمگروں کے غلبے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں آپ کی قبر کی مجاورت اختیار کرتا اور اس عظیم مصیبت پرفرزند مردہ ماں کی طرح آنکھوں سے اشکوں کی ندیاں بہاتا۔
-
- خدا گواہ ہے کہ آپ کی بیٹی خفیہ طور پر دفنائی جارہی ہیں۔ اب آپ کے وصال کے چند ہی روز گذرے ہیں، اور آپ کا نام ابھی زبانوں سے محو نہيں ہوا ہے کہ خدا گواہ ہے کہ آپ کی بیٹی رازداری میں دفن ہورہی ہیں۔ ابھی آپ کے وصال کے بعد چند ہی روز گذرے ہیں کہ ان کا حق لوٹ کر لے گئے اور ان کی میراث کو کھا گئے میں آپ کو درد دل سنا رہا ہوں اور اپنے آپ کو آپ کی یاد سے خوش رکھتا ہوں کہ اللہ کا درود و صلوات ہو آپ پر اور اللہ کا سلام و رضوان ہو فاطمہ پر۔ [72]
فضائل
- مسند احمد ابن حنبل میں کئی بار ایک روایت نقل ہوتی ہے جس کی تمام عبارتوں کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر(ص) نے آیت تطہیر
"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"۔ (ترجمہ: اللہ کا بس یہی ارادہ ہے کہ آلودگی اور پلیدی کو تم خاندان [نبی] سے دور رکھےاور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے)۔ [73] کا مصداق: فاطمہ، آپ کے شوہر اور دو بیٹے، بیان فرمایا ہے۔[74]
احمد بن حنبل ہی سے فضائل الصحابہ، میں روایت ہے کہ رسول اللہ(ص) چہ مہینوں تک گھر سے نماز فجر کے لئے نکلتے وقت جب فاطمہ کے گھر کے سامنے پہنچتے تو آواز دیتے تھے کہ: اے اہل بیت! نماز! نماز!اے اہل بیت! "خدا بس چاہتا ہے کہ پلیدی کو تم خاندان [نبی] سے دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے"۔[75]
- اہل سنت کے منابع میں رسول اللہ(ص) سے مروی ہے کہ آپ(ص) نے فاطمہ(س) سے مخاطب ہوکر فرمایا: خدا تمہارے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور تمہاری خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے (إن الله يغضب لغضبك ويرضی لرضاك).[76]
- منابع اهل سنت از پیامبر(ص) نقل کردهاند که خطاب به فاطمه(س) فرمود: «ای فاطمه! آیا خشنود نمیشوی که سرور زنان جهان و سرور زنان این امت و سرور زنهای مؤمن باشی؟[77] تعبیر «سرور زنان جهان/سیدة نساء العالمین» توسط امام علی(ع) نیز برای حضرت زهراء(س) در سخنانی که بر سر مزار وی به زبان آورده است، بکار رفته است.[78]
- فاطمہ(س) کا مُحَدَّثہ ہونا، حالانکہ آپ(س) نہ تو [امام] ہیں اور نہ ہی پیغمبر ہیں۔ مُحَدَّث وہ ہے جو مختلف اشیاء کا علم رکھتا ہو اور ان دو راستوں سے اس کے وجود کے ظرف میں قرار دیا جاتا ہے: 1۔ مبدأ اعلیٰ کی طرف سے لہام یا مکاشفہ کے ذریعے؛ 2۔ یا دوسروں پر پوشیدہ حقائق اس کے قلب پر وارد ہوتے ہیں۔ [79] نیز مُحَدَّث وہ ہے جو فرشتوں کی صدا کو سن لیتا ہے لیکن اس کا چہرہ نہیں دیکھتا۔[80] "مصحف فاطمہ" بھی فاطمہ(س) کے ساتھ فرشتے کی بات چیت سے ماخوذ ہے اور آپ(س) وہ باتیں علی(ع) کو سنا دیتی تھیں اور علی(ع) انہيں رشتہ تحریر میں لاتے تھے۔[81] تاہممصحف فاطمہ میں حلال و حرام کے بارے میں کچھ نہيں ہے بلکہ یہ [بعد میں رونما والے] واقعات و حوادث کے علم پر مشتمل ہے۔[82]
0 comments:
Post a Comment