صلح کے دلائل؛ امام حسن علیہ السلام کی صلح نہایت مفید اور پرثمر تھی اور ہم جانتے ہیں کہ جس مصالحت سے اہداف حاصل ہوجائیں وہ مصالحت اس جنگ سے بہتر ہے جس سے مقاصد کا حصول پردہ ابہام میں ہو یا پھر اس سے نقصان کے سوا کچھ بھی نہ مل رہا ہو؛ چنانچہ امام حسن علیہ السلام آپ (ع) کی فتح ہے۔
پیشکش: انصارالحسینؑ پاکستان شعبہ نشرواشاعت
صلح امام حسن (ع) کیوں؟ صلح کے ثمرات
الف: معاویہ گروپ کی نظر میں
صلح سے معاویہ بن ابی سفیان کا مقصد یہ تھا کہ کم خرچ پر اپنا ہدف حاصل کرکے سستے اقتدار پر قبضہ کرسکے کیونکہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ حکومت امام حسن علیہ السلام کا حق ہے اور اس حق پر قبضہ کرنے کے لئے اصلی مالک کو ـ اگرچہ ظاہری طور پر ـ راضی کرنا ضروری تھا اور اس مقصد کے حصول کا بہترین راستہ صلح کا انعقاد تھا.
اس طرح معاویہ جنگ کے خطرناک نتائج کے خوف سے چھٹکارا پاتا اور وہ فرزند رسول اللہ کے خلاف ـ جو مسلمانوں کی نظروں میں نہایت اونچے مقام و منزلت کے مالک تھے ـ کے خلاف جنگ مول لینے کے خطرے سے محفوظ رہتا۔
تاریخ بھی بتاتی ہے کہ معاویہ کا مقصد تسلط پانا تھا جو صلح کی بنا پر حاصل ہوا۔ صلح کے بعد اس نے نخیلہ کے مقام پر اہل کوفہ سے خطاب کیا اور کہا: "میں نماز یا روزے یا حج و زکاة کے لئے تمہارے خلاف نہیں لڑا بلکہ میرا مقصد یہ تھا کہ تم میری اطاعت قبول کرو اور میں تم پر اپنا تسلط ثابت کروں اور اب یہ تسلط "خدا نے" مجھے (اس صلحنامے کے نتیجے میں) دے دیا جبکہ تم اس سے ناراض تھے۔
(شرح نہج البلاغہ، ابن ابي الحديد، ج 4، ص 16.)
اس اصلی او بنیادی مقصد کے علاوہ اس نے گمان کررکھا تھا کہ حکومت سے امام حسن علیہ السلام کی کنارہ کشی رائے عامہ میں آپ (ع) کی طرف سے خلافت سے کنارہ کشی سمجھی جائےگی اور وہ خود خلیفہ کے طور پر پہچانا جائے گا۔ اس بات کی دلیل وہ بیعت ہے جو معاویہ خلیفہ کے عنوان سے لوگوں سے لے رہا تھا۔
اموی بادشاہ کی طرف سے صلحنامے کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ اگر امام حسن علیہ السلام نے صلح کو مسترد کیا اور جنگ جاری رکھی تو امام حسن علیہ السلام سمیت آل الرسول (ص) کو قتل کرنا آسان ہوجائے گا اور لوگ یہی سمجھیں گے کہ پیمان شکنی امام حسن (ع) کی طرف سے ہوئی ہے۔ یعنی یہ کہ صلح کی صورت میں جنگ کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔
اب اگر امام حسن علیہ السلام نے صلح کی تو یہ ایسی صورت تھی کہ دنیا پرستی نے آپ (ع) کے تمام کمانڈروں کو کچھ سکوں کے عوض معاویہ کی گود میں ڈال دیا تھا اور اگر جنگ ختم نہ ہوتی تو معاویہ کی طرف سے امام حسن علیہ السلام کے قتل تک کے لئے اقدامات ہوتے اور معاویہ یہی کہتا کہ جنگ کا نتیجہ یہی ہوتا ہے اور یہ کہ امام حسن (ع) فوج نہ ہوتے ہوئے بھی جنگ جاری رکھنے پر کیوں راضی ہوئے؟۔
(بحارالانوار، علامہ مجلسي، ص 44، ج 10، ص 138و امالي، شيخ طوسي، دارالثقافة، قم، 1413 ق، ص 561.)
معاویہ کے پہلے ہدف کے بارے میں مزید وضاحت بھی کریں گے۔
ب. امام حسن علیہ السلام کے پیروکاروں کے نزدیک صلح کے دلائل
جب ہم صالحین اور غیر صالحین کی شناخت کے حوالے سے غور و خوض کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کی "دنیا پرستی اور عدم دینداری" آخر کار امام حسن (ع) کی جانب سے صلح قبول کرنے پر منتج ہوئی چنانچہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے بھی ان دو گروپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دنیا پرستوں کو "عبیدالدنیا" (بندگانِ دنیا) کا لقب دیا.
(بحارالانوار، ج 44، ص 21.)
اس صورت حال کا عروج اس وقت تھا جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کی لشکرگاہ میں حاضر ہونے سے گریز کیا اور امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: عجب ہے ان لوگوں سے جن میں نہ تو حیا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی دین ہے ... وائے ہو تم پر اے دنیا کے غلامو!
(بحارالانوار، ج 44، ص 21 بحوالہ الخرائج و الجرائح، راوندي، موسسہ امام مہدي، قم، 1409 ق، ج 2، ص 575.)
جب لوگوں نے "زندہ رہنے" کے نعرے اٹھائے تو امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: معاویہ نے ہمیں ایسی چیز کی طرف بلایا ہے جس میں عزت و عدل و برابری نہیں ہے۔ اگر تم دنیا کی زندگی چاہتے ہو تو ہم صلح کی تجویز قبول کرتے ہیں اور اس کانٹے کو اپنی آنکھ میں سہہ لیتے ہیں اور اگر موت چاہتے ہو تو اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردیتے ہیں". راوی کہتا ہے: سب نے چلّا چلّا کر کہا: "بل البقية و الحياة" (موت نہیں چاہئے بلکہ ہم بقاء اور حیات چاہتے ہیں!).
(بحارالانوار، ج 44، ص 21.)
1. عدم دینداری اور دنیا پرستی کے اثراتیہ آثار مختلف سانچوں میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے:
عہد شکنی: جب قیس کی سپاہ معاویہ سے جا ملی تو امام (ع) نے فرمایا: تم نے میرے والد کی شہادت کے بعد میری ہاتھوں پر بیعت کی اور میں نے تمہاری بیعت قبول کی اور اسی راہ میں قیام کیا اور خدا جانتا ہے کہ میرا کیا ارادہ تھا لیکن تم مرتکب ہوئے ان اعمال کے جن کے تم مرتکب ہوئے۔
(الفتوح، ج 4، ص 290.)
امام سے خيانت و غداری:
امام حسن علیہ السلام کی سپاہ کے کمانڈروں اور سپاہیوں کی دنیا پرستی کو ان کی خیانت و غداری کے آئینے میں دیکھنا چاہئے۔ ان کی دنیا پرستی اس حد تک تھی کہ معاویہ نے انہیں جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی سکّے دے کر اپنی طرف مائل کیا؛ معاویہ نے "کندہ" قبیلے کے کمانڈر کو پانچ لاکھ درہم کے عوض خرید لیا اور وہ اپنے 200 افراد لے کر معاویہ سے جاملا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تم سے بارہا کہا ہے کہ تم میں وفا نہیں ہے اور تم دنیا کے بندے ہو۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 20.)
جدوجہد میں سستی اور عدم سنجیدگی:
جب جاریہ بن قدامہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دشمن کی طرف پیشقدمی کی اجازت مانگی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر یہ سارے لوگ آپ جیسے ہوتے تو میں انہیں پیشقدمی اور جنگ کی اجازت دیتا لیکن نصف تو کیا ان کا دسواں حصہ بھی آپ سے ہم عقیدہ نہیں ہے۔
(بحارالانوار ـ ج 34، ص 18 و ر.ک. بہ: سيرہ پيشوايان، ص 110؛ حقايق پنہان، ص 216 و 213.)
2. امام علیہ السلام کے محاذ پر دنیا پرستی طاری ہوئیامام حسن علیہ السلام تنہا رہ گئے:
امام حسن علیہ السلام کو کئی بار اس طرح کے تلخ واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ مثلاً جنگ کی ابتداء میں جب امام علیہ السلام جسر المنیع (جسر= پل) کے پاس پہنچے تو حجر بن عدی نے لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کیا اور انہیں جنگ کی ترغیب دلائی لیکن لوگ خاموش رہے یہاں تک کہ عدی بن حاتم اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: سبحان اللہ! کتنی بھونڈی ہے تمہاری یہ خاموشی! کیا تم اپنے امام اور اپنے پیغمبر (ص) کے فرزند کی دعوت کو جواب نہیں دے رہے ہو؟!
(مقاتل الطالبيين، ص 59؛ امالي طوسي، ص 559)
بعض لوگوں نے صلح پر تنقید کی تو امام علیہ السلام نے ان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے حکومت معاویہ کے حوالے نہیں کی مگر اس لئی کہ میرا کوئی یار و مددگار نہ تھا.
(احتجاج، طبرسي، ج 2، ص 71، بحارالانوار، ج 44، ص 147، بحارالانوار، ج 85، ص 212).
حتی یہ بات آپ امام علیہ السلام کی دعاؤں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
فوجی اقدام کزسی ذریعی حصول مقصد سے مایوسی:
نظام امامت کا بنیادی مقصد معاشرہ سازی اور جامعة النبی (ص) کا تحفظ ہے جبکہ جنگ اور صلح جیسے مسائل فرعی مسائل ہیں جو معاشرہ سازی کے سلسلے میں اس وقت سامنے آتے ہیں جب نئے معاشرے کی تعمیر کے وقت سابقہ مراعات یافتہ طبقوں کے مفادات آڑے آئیں اور یہ مفادات معاشرہ سازی کے ہدف سے تضاد رکھتے ہوں۔ ورنہ تو ائمہ طاہرین علیہم السلام ان امور سے قطع نظر اسلامی معاشرہ سازی کے لئے اقدام کرتے اور مدینةالنبی کے قیام کے لئے کوشاں رہتے۔
امام حسن علیہ السلام اسی راستے میں جنگ لڑنے پر مجبور ہوئے اور جب تنہا ہوئے اور فوجی اقدام کے ذریعے مقصد کا حصول ممکن نہ رہا تو آپ (ع) نے صلح کرلی اور صلحنامے پر دستخط کرتے وقت بھی فرمایا: اس وقت میں اس مرحلے پر پہنچ گیا ہوں کہ احیائے حق سے اور باطل مٹانے سے ـ جو میرا فریضہ ہے ـ مایوس ہوگیا ہوں۔
(علل الشرايع، شيخ صدوق، مکتبة الداوري، قم، ص 221. و ر.ک.بہ: تاريخ طبري، ج 3، ص 165؛ الفتوح، ج 3 و 4، ص 292 ـ 294؛ اعلام الوري؛ ج 1، ص 403.)
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ اگر امام حسن علیہ السلام اپنے کمانڈروں کی غداری کے بعد بھی جنگ جاری رکھتے تو کیا اس میں کامیابی ممکن تھی؟ اس عصر کے ماہرین اور ہمارے زمانے کے تجزیہ نگار بخوبی اس بات کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کو کامیابی نہیں مل سکتی تھی اور کامیابی نہ ملنے کی صورت میں ہم سب جانتے ہیں کہ معاویہ امام حسن علیہ السلام، خاندان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور تمام پیروان اہل بیت (ع) کو تہہ تیغ کرتا اور اسلام کا نام و نشان تک مٹ جاتا اور رسول اللہ (ص) کی محنتیں رائگاں جاتیں جبکہ امام حسن علیہ السلام نے صلح کرکے ان سب کا تحفظ کیا۔
صلح کی قبولیت:
سابقہ طبیعی واقعات و حوادث اور فوجی اقدام کے ذریعے حصول مقصد سے مایوسی امام کی طرف سے صلح قبول کرنے پر منتج ہوئی۔ وہ روایات جن میں امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "اگر میرے مددگار اور انصار و اعوان ہوتے تو میں صلح نہ کرتا..."، ثابت کرتی ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے صلح کو ایک حکمت عملی کے طور پر قبول نہیں فرمایا بلکہ اس وقت کی صورت حال سے مجبور ہوکر صلح کے لئے تیار ہوئے۔
(امام حسن () کا زيد بن وہب جہني کو جواب - احتجاج، طبرسی - ج 2، ص 69)
دوسرا حصہ: صلح کے اثرات
اہم سوال:
صلح سے امام حسن علیہ السلام کے حاصل کردہ اثرات و ثمرات کیا معاویہ کو حاصل ہونے والے فوائد کے ساتھ قابل قیاس و موازنہ ہیں؟ جو کچھ امام حسن علیہ السلام نے صلح سے حاصل کیا کیا وہ ان نتائج سے برابری کرسکتا ہے جو جنگ کی صورت میں مل سکتے تھے؟
بات در اصل یہ ہے کہ اگر امام حسن علیہ السلام کو صلح کے نتیجے میں جنگ سے کم ثمرات ملتے ہیں تو آپ (ع) کو صلح اختیار نہیں کرنی چاہئے تھی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کو صلح سے ملنے والے ثمرات دونوں صورتوں میں زیادہ فوائد ملے ہیں۔ اسی بنا پر ہم یہاں صلح امام حسن علیہ السلام کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں:
1. نظام امامت کی بقاء:
صلح کا سب سے اہم اور بنیاد مقصد اسلام کے نظام امامت کا تحفظ تھا۔ امام علیہ السلام نے صلح کے بارے میں پوچھنے والوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "اردت ان يکون للدين ناعي"؛ میں نے چاہا کہ دین کے لئے حفاظت کا انتظام باقی رہے۔
(حياة الامام الحسن بن علي، باقر شريف قرشي، دارالبلاغة، بيروت، 1413 ق، ج 2، ص 269؛ حقايق پنہان، ص 215.)
2. شیعیان امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بقاء:
امام علیہ السلام نے ابوسعید عقیصا سے فرمایا: اگر میں صلح نہ کرتا تو روئے زمین پر ہمارے پیروکاروں میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 1، و موارد ديگر. حياة الامام الحسن بن علي، ص 106، 57؛ و ج 85، ص 212؛ حلية الاوليأ، ج 2، ص 36؛ حياة الامام الحسن بن علي، ج 2، ص 178)
3. دین کا تحفظ اور امت نبی (ص) کے مصالح و مفادات کی رعایت:
روایات سے واضح ہے کہ اس وقت روم شرقی کی افواج اسلامی نظام حکومت پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار تھیں اور اگر داخلی جنگ جاری رہتی تو سلطنت روم بھی اپنے ہدف کے حصول یعنی اسلام کی بنیادیں اکھاڑ پھینکنے کے لئے مداخلت کرتی۔
(کتاب سيرہ پيشوايان، ص 97.)
امام علیہ السلام نے اس بارے میں فرمایا: مجھے خوف تھا کہ مسلمانوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں ... میں نے دین خدا کی بقاء چاہے۔
(حقايق پنہان، ص 197؛ بہ نقل از حياة الامام الحسن، باقر شريف قرشي، ج 2، ص 280 - کتاب سيرہ پيشوايان، ص 276)۔
اگرچہ امام علیہ السلام کا یہ کلام عام ہے اور ممکن ہے کہ روم شرقی کے سوا کوئی اور خطرہ بھی امام (ع) کے مد نظر ہو لیکن امرِ مُسَلّم یہ ہے کہ اس کلام میں دین کا تحفظ ملحوظ رکھا گیا ہے۔
امام علیہ السلام نے بارہا فرمایا کہ صلح کے مصالح و منافع اگرچہ لوگوں کے لئے ظاہر و آشکار نہیں ہیں لیکن یہ مصالح و منافع بہت اہم ہیں۔
آپ (ع) نے معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں نے امت کی مصلحت اور مفاد کو مد نظر رکھا اور... اس امر میں، میں نے لوگوں کے دوام اور صلاح کے سوا کچھ بھی نہیں چاہا۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 54 و ر.ک.بہ: احتجاج، ج 2، ص 67.)
4. امن و امان کو اختلاف پر ترجیح دی گئی:امام علیہ السلام نے ساباط کی علاقے سے کوچ کرتے ہوئے فرمایا: لوگوں کے درمیان مؤانست و رفاقت، ام و سکون جدائی، افتراق، امن و امان کے فقدان اور عداوت و دشمنی سے ـ جس کی تمہیں خواہش ہے ـ بہتر ہے.
(الفتوح، ج 3، ص 289 و 295.)
5. حقیقی عظمت و عزت کا تحفظ:صلح ـ گو کہ بظاہر پسپائی تھی ـ لیکن حقیقت میں امام حسن علیہ السلام کا یہ تاریخی اقدام پیروان آل محمد (ص) کی عزت و عظمت اور ابدی شکست ناپذیری کا سبب بنی؛ چنانچہ جب سلیمان بن صرد خزاعی نے امام علیہ السلام کے سامنے آکر کہا: السلام علیک یا مُذِلَّ المؤمنین (سلام ہو آپ پر اے مؤمنین کو ذلیل کرنے والے (معاذاللہ)) تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم ماتحت رہو لیکن عافیت سے رہو تو یہ میرے لئے اس سے زیادہ اہم اور پسندیدہ ہے کہ تم عزیز رہو لیکن قتل کئے جاؤ.
(الامامة و السياسة، ص 163 ـ 166، تاريخ ابن عساکر، ترجمہ الامام الحسن، ص 171)
اثرات کے سائے میں:مذکورہ حقائق اور صلح کے اثرات و نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
1. فوجی اقدام اور جنگ کے تسلسل سے واضح اور قابل توجہ نتائج کی توقع نہیں تھی اور حکمت عملی پر مبنی صلح (جنگ بندی) جنگ سے زیادہ بہتر اور اہم تھی اور صلح کو مدلل انداز سے ترجیح دی جا سکتی تھی چنانچہ صلح سے امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کی نسبت زیادہ وسیع فوائد حاصل کئے کیونکہ صلح سے امام علیہ السلام کا ایک بنیادی مقصد نظام امامت اور شیعیان اہل بیت (ع) کی بقاء، تھا اور اگر امام علیہ السلام صلخ نہ کرتے تو نظام امامت بھی ختم ہوکر رہ جاتا اور شیعیان اہل بیت (ع) کا بھی خاتمہ ہوجاتا۔
جو کچھ معاویہ نے حاصل کیا وہ اقتدار تھا جو بہت زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا جبکہ صلح سے پہلے امامت کے نظام کو خطرہ تھا اور بعد کے برسوں میں ہم نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں اسی نظام امامت کے عاشورائی اقدام نے معاویہ کی بنائے ہوئے نظام سلطنت کو متزلزل کردیا جبکہ نظام امامت امام معصوم (ع) اور امام (ع) کے پیروکاروں کی صورت میں باقی رہا گو کہ اس وقت ان کی آبادی ممکنہ حد تک کم تھی لیکن بعد کے زمانوں میں ائمہ معصومین علیہم السلام اور شیعیان امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نقائص کا ازالہ کیا اور تشیع کی علمی، کلامی اور فقہی اور اعتقادی بنیادوں کو مضبوط بنایا جس کی بدولت امامت باقی رہی اور تشیع بھی باقی رہا اور آج بھی باقی ہے اور کوئی بھی طاقت اسے مٹانی کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتی۔
2. معاویہ نے صلحنامے کی تمام دفعات و شقوق کے خلاف ورزی کی۔ وہ استبداد و آمریت کی راہ پر گامزن ہوا اور اہل تشیع کو اذیت و آزار اور قتل و دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے کہا کہ صلح امام حسن علیہ السلام غیر مفید تھی۔
(حقايق پنہان، ص 198)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظام امامت صرف اسی زمانے تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق قیامت تک کی انسانی تاریخ سے ہے؛ چنانچہ امام حسن علیہ السلام نے اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھا کیونکہ آپ علیہ السلام نظام امامت اور انقلاب محمدی (ص) کے پاسدار تھے اور امام حسن علیہ السلام نے یہ مقصد صلح کے ذریعے حاصل کیا اور شیعہ اقلیت اور امامت کے نظام نے اپنی بقاء کا تحفظ کیا اور یہ نظام اس نہایت دشوار گزار گھاٹی سے سلامت گذرا۔
3. حجر بن عدی نے اپنے ابتدائی موقف میں کہا تھا کہ صلح شکست و ذلت کی مترادف ہے (بحارالانوار، ج 44، ص 57.) لیکن یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ امامت و تشیع کی بقاء کی ضمانت صلح سے فراہم ہوئی چنانچہ ہمارا سوال یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی کامیابی ہوسکتی تھی؟
4. تشیع، اسلام اور امامت کی بنیادوں کو لاحق خطرات کے سامنے صلح کی حکمت عملی اپنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کمزور کارکردگی یا جہل و کم علمی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ (جیسا کہ ابوسعید نے کہا ہے بحارالانوار، ج 44، ص- 1)
امام علیہ السلام نے صلح کے ثمرات اور مصلحتوں کے مخفی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت خضر(ع) کے ہاتھوں کشتی کو سوراخ کئے جانے کے واقعے کی طرف اشارہ کیا اور حضرت موسی (ع) کی شکایت کا حوالہ دیا اور فرمایا: "جب میں خدا کی طرف سے مسلمانوں کا امام ہوں تو تمہیں مجھے جنگ اور صلح اختیار کرنے کے سلسلے میں نادانی کا الزام نہیں دینا چاہئے، اگر چہ اس کی وجہ اور حکمت تمہاری سمجھ سے بالاتر ہو اور امر تم پر مشتبہ ہوجائے۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 1)
5. ائمہ علیہم السلام پر طے شدہ منصوبہ نہ رکھنے کا الزام لگانا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اصل مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لائے ہوئے نظام کا تحفظ اور نظام امامت کے تحفظ کے سائے میں اسلامی معاشرہ سازی ہے اور یہ عمل حالات و حقائق کے پیش نظر مختلف روشوں سے انجام پاتا ہے۔ ہر امام اپنے زمانے میں اپنے حالات کو مد نظر رکھ کر اس ہدف کے حصول کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور ہر امام کے زمانے کے حالات سابق امام کے زمانے کے حالات سے مختلف ہوتے ہیں چنانچہ ہر امام کی روش بھی سابق امام کی روش سے روش سے مختلف ہوتی ہے۔
صلح یا جنگ ہدف نہیں ہے۔ چنانچہ مخالفین بھی ـ حتی اہل بیت (ع) کے خونی دشمن بھی ـ ائمہ طاہرین علیہم السلام پر کسی صورت میں بھی اختلاف انگیزی اور تفرقہ اندازی جیسے اقدامات کا الزام نہیں لگا سکے ہیں اور نہیں لگا سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کے اقدامات ہدف کے حصول کی روشیں ہیں۔ اسی بنا پر شہید مطہری لکھتے ہیں کہ "بے شک اگر امام حسن علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہوتے تو وہ بھی امام حسین علیہ السلام کا کام ہی انجام دیتے اور اگر امام حسین علیہ السلام کو امام حسن علیہ السلام جیسے حتالات و حقائق کا سامنا ہوتا تو وہ بھی وہی کچھ کرتے جو امام حسن علیہ السلام نے کیا"۔
(سيري در سيرہ ائمہ اطہار، 60.)
6. صلح یا جنگ بندی کی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ معاذاللہ امام حسن علیہ السلام ساز باز والی شخصیت تھی یا آپ (ع) ڈرتے تھے یا پھر آرام و آسائش کے درپے تھے۔ چنانچہ جب عبداللہ بن زبیر نے امام حسن علیہ السلام کی صلح پر اعتراض کیا تو آپ (ع) نے فرمایا: "کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے خوف اور ذلت کی وجہ سے معاویہ کے ساتھ صلح کی ہے؟ وائے ہو تم پر! خوف اور ذلت اور عجز و ناتوانی کبھی بھی مجھ پر غلبہ نہیں پاسکتی۔ میری صلح کی وجہ تم جیسے دوست تھے جو میری دوستی کا دعوی تو کرتے تھے لیکن دل میں میری نابودی کی آرزو رکھتے تھے"۔
(حياة الامام الحسن بن علي، ج 2، ص 280 - سيرہ پيشوايان، ص 93 ـ 94.)
نتيجہ
معاویہ نے صلح کی پیشکش کی کیونکہ وہ کم خرچ پر "سستا اقتدار" حاصل کرنا چاہتا تھا اور امام حسن علیہ السلام نے صلح کی پیشکش قبول کی کیونکہ لوگ ـ بالخصوص نمایاں کمانڈر اور سپہ سالار اور سردار و عمائدین یعنی خواص امت ـ ایثار و قربانی کے جذبے سے عاری اور دنیا پرستی میں مگن تھے اور ہر قیمت پر اپنی دو روز کی زندگی کو اللہ کی راہ میں شہادت پر ترجیح دے رہے تھے۔ اور اسی دنیا پرستی کی بنا پر عہد شکنی اور خیانت کے مرتکب ہوچکے تھے، جس کی وجہ سے امام تنہا رہ گئے تھے، فوجی اقدام کے ذریعے مقصد کا حصول نا ممکن ہوچکا تھا چنانچہ امام (ع) نے صلح کی پیشکش قبول کی اور نظام امامت باقی رہا، تشیع بھی باقی رہا یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
امام حسن علیہ السلام کی صلح نہایت مفید اور پرثمر تھی اور ہم جانتے ہیں کہ جس مصالحت سے اہداف حاصل ہوجائیں وہ مصالحت اس جنگ سے بہتر ہے جس سے مقاصد کا حصول پردہ ابہام میں ہو یا پھر اس سے نقصان کے سوا کچھ بھی نہ مل رہا ہو۔
صلح سے معاویہ بن ابی سفیان کا مقصد یہ تھا کہ کم خرچ پر اپنا ہدف حاصل کرکے سستے اقتدار پر قبضہ کرسکے کیونکہ وہ بخوبی جانتا تھا کہ حکومت امام حسن علیہ السلام کا حق ہے اور اس حق پر قبضہ کرنے کے لئے اصلی مالک کو ـ اگرچہ ظاہری طور پر ـ راضی کرنا ضروری تھا اور اس مقصد کے حصول کا بہترین راستہ صلح کا انعقاد تھا.
اس طرح معاویہ جنگ کے خطرناک نتائج کے خوف سے چھٹکارا پاتا اور وہ فرزند رسول اللہ کے خلاف ـ جو مسلمانوں کی نظروں میں نہایت اونچے مقام و منزلت کے مالک تھے ـ کے خلاف جنگ مول لینے کے خطرے سے محفوظ رہتا۔
تاریخ بھی بتاتی ہے کہ معاویہ کا مقصد تسلط پانا تھا جو صلح کی بنا پر حاصل ہوا۔ صلح کے بعد اس نے نخیلہ کے مقام پر اہل کوفہ سے خطاب کیا اور کہا: "میں نماز یا روزے یا حج و زکاة کے لئے تمہارے خلاف نہیں لڑا بلکہ میرا مقصد یہ تھا کہ تم میری اطاعت قبول کرو اور میں تم پر اپنا تسلط ثابت کروں اور اب یہ تسلط "خدا نے" مجھے (اس صلحنامے کے نتیجے میں) دے دیا جبکہ تم اس سے ناراض تھے۔
(شرح نہج البلاغہ، ابن ابي الحديد، ج 4، ص 16.)
اس اصلی او بنیادی مقصد کے علاوہ اس نے گمان کررکھا تھا کہ حکومت سے امام حسن علیہ السلام کی کنارہ کشی رائے عامہ میں آپ (ع) کی طرف سے خلافت سے کنارہ کشی سمجھی جائےگی اور وہ خود خلیفہ کے طور پر پہچانا جائے گا۔ اس بات کی دلیل وہ بیعت ہے جو معاویہ خلیفہ کے عنوان سے لوگوں سے لے رہا تھا۔
اموی بادشاہ کی طرف سے صلحنامے کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ اگر امام حسن علیہ السلام نے صلح کو مسترد کیا اور جنگ جاری رکھی تو امام حسن علیہ السلام سمیت آل الرسول (ص) کو قتل کرنا آسان ہوجائے گا اور لوگ یہی سمجھیں گے کہ پیمان شکنی امام حسن (ع) کی طرف سے ہوئی ہے۔ یعنی یہ کہ صلح کی صورت میں جنگ کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔
اب اگر امام حسن علیہ السلام نے صلح کی تو یہ ایسی صورت تھی کہ دنیا پرستی نے آپ (ع) کے تمام کمانڈروں کو کچھ سکوں کے عوض معاویہ کی گود میں ڈال دیا تھا اور اگر جنگ ختم نہ ہوتی تو معاویہ کی طرف سے امام حسن علیہ السلام کے قتل تک کے لئے اقدامات ہوتے اور معاویہ یہی کہتا کہ جنگ کا نتیجہ یہی ہوتا ہے اور یہ کہ امام حسن (ع) فوج نہ ہوتے ہوئے بھی جنگ جاری رکھنے پر کیوں راضی ہوئے؟۔
(بحارالانوار، علامہ مجلسي، ص 44، ج 10، ص 138و امالي، شيخ طوسي، دارالثقافة، قم، 1413 ق، ص 561.)
معاویہ کے پہلے ہدف کے بارے میں مزید وضاحت بھی کریں گے۔
ب. امام حسن علیہ السلام کے پیروکاروں کے نزدیک صلح کے دلائل
جب ہم صالحین اور غیر صالحین کی شناخت کے حوالے سے غور و خوض کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کی "دنیا پرستی اور عدم دینداری" آخر کار امام حسن (ع) کی جانب سے صلح قبول کرنے پر منتج ہوئی چنانچہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے بھی ان دو گروپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دنیا پرستوں کو "عبیدالدنیا" (بندگانِ دنیا) کا لقب دیا.
(بحارالانوار، ج 44، ص 21.)
اس صورت حال کا عروج اس وقت تھا جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کی لشکرگاہ میں حاضر ہونے سے گریز کیا اور امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: عجب ہے ان لوگوں سے جن میں نہ تو حیا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی دین ہے ... وائے ہو تم پر اے دنیا کے غلامو!
(بحارالانوار، ج 44، ص 21 بحوالہ الخرائج و الجرائح، راوندي، موسسہ امام مہدي، قم، 1409 ق، ج 2، ص 575.)
جب لوگوں نے "زندہ رہنے" کے نعرے اٹھائے تو امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: معاویہ نے ہمیں ایسی چیز کی طرف بلایا ہے جس میں عزت و عدل و برابری نہیں ہے۔ اگر تم دنیا کی زندگی چاہتے ہو تو ہم صلح کی تجویز قبول کرتے ہیں اور اس کانٹے کو اپنی آنکھ میں سہہ لیتے ہیں اور اگر موت چاہتے ہو تو اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردیتے ہیں". راوی کہتا ہے: سب نے چلّا چلّا کر کہا: "بل البقية و الحياة" (موت نہیں چاہئے بلکہ ہم بقاء اور حیات چاہتے ہیں!).
(بحارالانوار، ج 44، ص 21.)
1. عدم دینداری اور دنیا پرستی کے اثراتیہ آثار مختلف سانچوں میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے:
عہد شکنی: جب قیس کی سپاہ معاویہ سے جا ملی تو امام (ع) نے فرمایا: تم نے میرے والد کی شہادت کے بعد میری ہاتھوں پر بیعت کی اور میں نے تمہاری بیعت قبول کی اور اسی راہ میں قیام کیا اور خدا جانتا ہے کہ میرا کیا ارادہ تھا لیکن تم مرتکب ہوئے ان اعمال کے جن کے تم مرتکب ہوئے۔
(الفتوح، ج 4، ص 290.)
امام سے خيانت و غداری:
امام حسن علیہ السلام کی سپاہ کے کمانڈروں اور سپاہیوں کی دنیا پرستی کو ان کی خیانت و غداری کے آئینے میں دیکھنا چاہئے۔ ان کی دنیا پرستی اس حد تک تھی کہ معاویہ نے انہیں جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی سکّے دے کر اپنی طرف مائل کیا؛ معاویہ نے "کندہ" قبیلے کے کمانڈر کو پانچ لاکھ درہم کے عوض خرید لیا اور وہ اپنے 200 افراد لے کر معاویہ سے جاملا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تم سے بارہا کہا ہے کہ تم میں وفا نہیں ہے اور تم دنیا کے بندے ہو۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 20.)
جدوجہد میں سستی اور عدم سنجیدگی:
جب جاریہ بن قدامہ امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دشمن کی طرف پیشقدمی کی اجازت مانگی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر یہ سارے لوگ آپ جیسے ہوتے تو میں انہیں پیشقدمی اور جنگ کی اجازت دیتا لیکن نصف تو کیا ان کا دسواں حصہ بھی آپ سے ہم عقیدہ نہیں ہے۔
(بحارالانوار ـ ج 34، ص 18 و ر.ک. بہ: سيرہ پيشوايان، ص 110؛ حقايق پنہان، ص 216 و 213.)
2. امام علیہ السلام کے محاذ پر دنیا پرستی طاری ہوئیامام حسن علیہ السلام تنہا رہ گئے:
امام حسن علیہ السلام کو کئی بار اس طرح کے تلخ واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ مثلاً جنگ کی ابتداء میں جب امام علیہ السلام جسر المنیع (جسر= پل) کے پاس پہنچے تو حجر بن عدی نے لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کیا اور انہیں جنگ کی ترغیب دلائی لیکن لوگ خاموش رہے یہاں تک کہ عدی بن حاتم اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: سبحان اللہ! کتنی بھونڈی ہے تمہاری یہ خاموشی! کیا تم اپنے امام اور اپنے پیغمبر (ص) کے فرزند کی دعوت کو جواب نہیں دے رہے ہو؟!
(مقاتل الطالبيين، ص 59؛ امالي طوسي، ص 559)
بعض لوگوں نے صلح پر تنقید کی تو امام علیہ السلام نے ان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے حکومت معاویہ کے حوالے نہیں کی مگر اس لئی کہ میرا کوئی یار و مددگار نہ تھا.
(احتجاج، طبرسي، ج 2، ص 71، بحارالانوار، ج 44، ص 147، بحارالانوار، ج 85، ص 212).
حتی یہ بات آپ امام علیہ السلام کی دعاؤں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
فوجی اقدام کزسی ذریعی حصول مقصد سے مایوسی:
نظام امامت کا بنیادی مقصد معاشرہ سازی اور جامعة النبی (ص) کا تحفظ ہے جبکہ جنگ اور صلح جیسے مسائل فرعی مسائل ہیں جو معاشرہ سازی کے سلسلے میں اس وقت سامنے آتے ہیں جب نئے معاشرے کی تعمیر کے وقت سابقہ مراعات یافتہ طبقوں کے مفادات آڑے آئیں اور یہ مفادات معاشرہ سازی کے ہدف سے تضاد رکھتے ہوں۔ ورنہ تو ائمہ طاہرین علیہم السلام ان امور سے قطع نظر اسلامی معاشرہ سازی کے لئے اقدام کرتے اور مدینةالنبی کے قیام کے لئے کوشاں رہتے۔
امام حسن علیہ السلام اسی راستے میں جنگ لڑنے پر مجبور ہوئے اور جب تنہا ہوئے اور فوجی اقدام کے ذریعے مقصد کا حصول ممکن نہ رہا تو آپ (ع) نے صلح کرلی اور صلحنامے پر دستخط کرتے وقت بھی فرمایا: اس وقت میں اس مرحلے پر پہنچ گیا ہوں کہ احیائے حق سے اور باطل مٹانے سے ـ جو میرا فریضہ ہے ـ مایوس ہوگیا ہوں۔
(علل الشرايع، شيخ صدوق، مکتبة الداوري، قم، ص 221. و ر.ک.بہ: تاريخ طبري، ج 3، ص 165؛ الفتوح، ج 3 و 4، ص 292 ـ 294؛ اعلام الوري؛ ج 1، ص 403.)
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ اگر امام حسن علیہ السلام اپنے کمانڈروں کی غداری کے بعد بھی جنگ جاری رکھتے تو کیا اس میں کامیابی ممکن تھی؟ اس عصر کے ماہرین اور ہمارے زمانے کے تجزیہ نگار بخوبی اس بات کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کو کامیابی نہیں مل سکتی تھی اور کامیابی نہ ملنے کی صورت میں ہم سب جانتے ہیں کہ معاویہ امام حسن علیہ السلام، خاندان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور تمام پیروان اہل بیت (ع) کو تہہ تیغ کرتا اور اسلام کا نام و نشان تک مٹ جاتا اور رسول اللہ (ص) کی محنتیں رائگاں جاتیں جبکہ امام حسن علیہ السلام نے صلح کرکے ان سب کا تحفظ کیا۔
صلح کی قبولیت:
سابقہ طبیعی واقعات و حوادث اور فوجی اقدام کے ذریعے حصول مقصد سے مایوسی امام کی طرف سے صلح قبول کرنے پر منتج ہوئی۔ وہ روایات جن میں امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "اگر میرے مددگار اور انصار و اعوان ہوتے تو میں صلح نہ کرتا..."، ثابت کرتی ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے صلح کو ایک حکمت عملی کے طور پر قبول نہیں فرمایا بلکہ اس وقت کی صورت حال سے مجبور ہوکر صلح کے لئے تیار ہوئے۔
(امام حسن () کا زيد بن وہب جہني کو جواب - احتجاج، طبرسی - ج 2، ص 69)
دوسرا حصہ: صلح کے اثرات
اہم سوال:
صلح سے امام حسن علیہ السلام کے حاصل کردہ اثرات و ثمرات کیا معاویہ کو حاصل ہونے والے فوائد کے ساتھ قابل قیاس و موازنہ ہیں؟ جو کچھ امام حسن علیہ السلام نے صلح سے حاصل کیا کیا وہ ان نتائج سے برابری کرسکتا ہے جو جنگ کی صورت میں مل سکتے تھے؟
بات در اصل یہ ہے کہ اگر امام حسن علیہ السلام کو صلح کے نتیجے میں جنگ سے کم ثمرات ملتے ہیں تو آپ (ع) کو صلح اختیار نہیں کرنی چاہئے تھی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کو صلح سے ملنے والے ثمرات دونوں صورتوں میں زیادہ فوائد ملے ہیں۔ اسی بنا پر ہم یہاں صلح امام حسن علیہ السلام کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں:
1. نظام امامت کی بقاء:
صلح کا سب سے اہم اور بنیاد مقصد اسلام کے نظام امامت کا تحفظ تھا۔ امام علیہ السلام نے صلح کے بارے میں پوچھنے والوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "اردت ان يکون للدين ناعي"؛ میں نے چاہا کہ دین کے لئے حفاظت کا انتظام باقی رہے۔
(حياة الامام الحسن بن علي، باقر شريف قرشي، دارالبلاغة، بيروت، 1413 ق، ج 2، ص 269؛ حقايق پنہان، ص 215.)
2. شیعیان امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بقاء:
امام علیہ السلام نے ابوسعید عقیصا سے فرمایا: اگر میں صلح نہ کرتا تو روئے زمین پر ہمارے پیروکاروں میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 1، و موارد ديگر. حياة الامام الحسن بن علي، ص 106، 57؛ و ج 85، ص 212؛ حلية الاوليأ، ج 2، ص 36؛ حياة الامام الحسن بن علي، ج 2، ص 178)
3. دین کا تحفظ اور امت نبی (ص) کے مصالح و مفادات کی رعایت:
روایات سے واضح ہے کہ اس وقت روم شرقی کی افواج اسلامی نظام حکومت پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار تھیں اور اگر داخلی جنگ جاری رہتی تو سلطنت روم بھی اپنے ہدف کے حصول یعنی اسلام کی بنیادیں اکھاڑ پھینکنے کے لئے مداخلت کرتی۔
(کتاب سيرہ پيشوايان، ص 97.)
امام علیہ السلام نے اس بارے میں فرمایا: مجھے خوف تھا کہ مسلمانوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں ... میں نے دین خدا کی بقاء چاہے۔
(حقايق پنہان، ص 197؛ بہ نقل از حياة الامام الحسن، باقر شريف قرشي، ج 2، ص 280 - کتاب سيرہ پيشوايان، ص 276)۔
اگرچہ امام علیہ السلام کا یہ کلام عام ہے اور ممکن ہے کہ روم شرقی کے سوا کوئی اور خطرہ بھی امام (ع) کے مد نظر ہو لیکن امرِ مُسَلّم یہ ہے کہ اس کلام میں دین کا تحفظ ملحوظ رکھا گیا ہے۔
امام علیہ السلام نے بارہا فرمایا کہ صلح کے مصالح و منافع اگرچہ لوگوں کے لئے ظاہر و آشکار نہیں ہیں لیکن یہ مصالح و منافع بہت اہم ہیں۔
آپ (ع) نے معاویہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں نے امت کی مصلحت اور مفاد کو مد نظر رکھا اور... اس امر میں، میں نے لوگوں کے دوام اور صلاح کے سوا کچھ بھی نہیں چاہا۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 54 و ر.ک.بہ: احتجاج، ج 2، ص 67.)
4. امن و امان کو اختلاف پر ترجیح دی گئی:امام علیہ السلام نے ساباط کی علاقے سے کوچ کرتے ہوئے فرمایا: لوگوں کے درمیان مؤانست و رفاقت، ام و سکون جدائی، افتراق، امن و امان کے فقدان اور عداوت و دشمنی سے ـ جس کی تمہیں خواہش ہے ـ بہتر ہے.
(الفتوح، ج 3، ص 289 و 295.)
5. حقیقی عظمت و عزت کا تحفظ:صلح ـ گو کہ بظاہر پسپائی تھی ـ لیکن حقیقت میں امام حسن علیہ السلام کا یہ تاریخی اقدام پیروان آل محمد (ص) کی عزت و عظمت اور ابدی شکست ناپذیری کا سبب بنی؛ چنانچہ جب سلیمان بن صرد خزاعی نے امام علیہ السلام کے سامنے آکر کہا: السلام علیک یا مُذِلَّ المؤمنین (سلام ہو آپ پر اے مؤمنین کو ذلیل کرنے والے (معاذاللہ)) تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم ماتحت رہو لیکن عافیت سے رہو تو یہ میرے لئے اس سے زیادہ اہم اور پسندیدہ ہے کہ تم عزیز رہو لیکن قتل کئے جاؤ.
(الامامة و السياسة، ص 163 ـ 166، تاريخ ابن عساکر، ترجمہ الامام الحسن، ص 171)
اثرات کے سائے میں:مذکورہ حقائق اور صلح کے اثرات و نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
1. فوجی اقدام اور جنگ کے تسلسل سے واضح اور قابل توجہ نتائج کی توقع نہیں تھی اور حکمت عملی پر مبنی صلح (جنگ بندی) جنگ سے زیادہ بہتر اور اہم تھی اور صلح کو مدلل انداز سے ترجیح دی جا سکتی تھی چنانچہ صلح سے امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کی نسبت زیادہ وسیع فوائد حاصل کئے کیونکہ صلح سے امام علیہ السلام کا ایک بنیادی مقصد نظام امامت اور شیعیان اہل بیت (ع) کی بقاء، تھا اور اگر امام علیہ السلام صلخ نہ کرتے تو نظام امامت بھی ختم ہوکر رہ جاتا اور شیعیان اہل بیت (ع) کا بھی خاتمہ ہوجاتا۔
جو کچھ معاویہ نے حاصل کیا وہ اقتدار تھا جو بہت زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا جبکہ صلح سے پہلے امامت کے نظام کو خطرہ تھا اور بعد کے برسوں میں ہم نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں اسی نظام امامت کے عاشورائی اقدام نے معاویہ کی بنائے ہوئے نظام سلطنت کو متزلزل کردیا جبکہ نظام امامت امام معصوم (ع) اور امام (ع) کے پیروکاروں کی صورت میں باقی رہا گو کہ اس وقت ان کی آبادی ممکنہ حد تک کم تھی لیکن بعد کے زمانوں میں ائمہ معصومین علیہم السلام اور شیعیان امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نقائص کا ازالہ کیا اور تشیع کی علمی، کلامی اور فقہی اور اعتقادی بنیادوں کو مضبوط بنایا جس کی بدولت امامت باقی رہی اور تشیع بھی باقی رہا اور آج بھی باقی ہے اور کوئی بھی طاقت اسے مٹانی کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتی۔
2. معاویہ نے صلحنامے کی تمام دفعات و شقوق کے خلاف ورزی کی۔ وہ استبداد و آمریت کی راہ پر گامزن ہوا اور اہل تشیع کو اذیت و آزار اور قتل و دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے بعض حضرات نے کہا کہ صلح امام حسن علیہ السلام غیر مفید تھی۔
(حقايق پنہان، ص 198)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظام امامت صرف اسی زمانے تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق قیامت تک کی انسانی تاریخ سے ہے؛ چنانچہ امام حسن علیہ السلام نے اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھا کیونکہ آپ علیہ السلام نظام امامت اور انقلاب محمدی (ص) کے پاسدار تھے اور امام حسن علیہ السلام نے یہ مقصد صلح کے ذریعے حاصل کیا اور شیعہ اقلیت اور امامت کے نظام نے اپنی بقاء کا تحفظ کیا اور یہ نظام اس نہایت دشوار گزار گھاٹی سے سلامت گذرا۔
3. حجر بن عدی نے اپنے ابتدائی موقف میں کہا تھا کہ صلح شکست و ذلت کی مترادف ہے (بحارالانوار، ج 44، ص 57.) لیکن یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ امامت و تشیع کی بقاء کی ضمانت صلح سے فراہم ہوئی چنانچہ ہمارا سوال یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی کامیابی ہوسکتی تھی؟
4. تشیع، اسلام اور امامت کی بنیادوں کو لاحق خطرات کے سامنے صلح کی حکمت عملی اپنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کمزور کارکردگی یا جہل و کم علمی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ (جیسا کہ ابوسعید نے کہا ہے بحارالانوار، ج 44، ص- 1)
امام علیہ السلام نے صلح کے ثمرات اور مصلحتوں کے مخفی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت خضر(ع) کے ہاتھوں کشتی کو سوراخ کئے جانے کے واقعے کی طرف اشارہ کیا اور حضرت موسی (ع) کی شکایت کا حوالہ دیا اور فرمایا: "جب میں خدا کی طرف سے مسلمانوں کا امام ہوں تو تمہیں مجھے جنگ اور صلح اختیار کرنے کے سلسلے میں نادانی کا الزام نہیں دینا چاہئے، اگر چہ اس کی وجہ اور حکمت تمہاری سمجھ سے بالاتر ہو اور امر تم پر مشتبہ ہوجائے۔
(بحارالانوار، ج 44، ص 1)
5. ائمہ علیہم السلام پر طے شدہ منصوبہ نہ رکھنے کا الزام لگانا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اصل مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لائے ہوئے نظام کا تحفظ اور نظام امامت کے تحفظ کے سائے میں اسلامی معاشرہ سازی ہے اور یہ عمل حالات و حقائق کے پیش نظر مختلف روشوں سے انجام پاتا ہے۔ ہر امام اپنے زمانے میں اپنے حالات کو مد نظر رکھ کر اس ہدف کے حصول کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور ہر امام کے زمانے کے حالات سابق امام کے زمانے کے حالات سے مختلف ہوتے ہیں چنانچہ ہر امام کی روش بھی سابق امام کی روش سے روش سے مختلف ہوتی ہے۔
صلح یا جنگ ہدف نہیں ہے۔ چنانچہ مخالفین بھی ـ حتی اہل بیت (ع) کے خونی دشمن بھی ـ ائمہ طاہرین علیہم السلام پر کسی صورت میں بھی اختلاف انگیزی اور تفرقہ اندازی جیسے اقدامات کا الزام نہیں لگا سکے ہیں اور نہیں لگا سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کے اقدامات ہدف کے حصول کی روشیں ہیں۔ اسی بنا پر شہید مطہری لکھتے ہیں کہ "بے شک اگر امام حسن علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہوتے تو وہ بھی امام حسین علیہ السلام کا کام ہی انجام دیتے اور اگر امام حسین علیہ السلام کو امام حسن علیہ السلام جیسے حتالات و حقائق کا سامنا ہوتا تو وہ بھی وہی کچھ کرتے جو امام حسن علیہ السلام نے کیا"۔
(سيري در سيرہ ائمہ اطہار، 60.)
6. صلح یا جنگ بندی کی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ معاذاللہ امام حسن علیہ السلام ساز باز والی شخصیت تھی یا آپ (ع) ڈرتے تھے یا پھر آرام و آسائش کے درپے تھے۔ چنانچہ جب عبداللہ بن زبیر نے امام حسن علیہ السلام کی صلح پر اعتراض کیا تو آپ (ع) نے فرمایا: "کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے خوف اور ذلت کی وجہ سے معاویہ کے ساتھ صلح کی ہے؟ وائے ہو تم پر! خوف اور ذلت اور عجز و ناتوانی کبھی بھی مجھ پر غلبہ نہیں پاسکتی۔ میری صلح کی وجہ تم جیسے دوست تھے جو میری دوستی کا دعوی تو کرتے تھے لیکن دل میں میری نابودی کی آرزو رکھتے تھے"۔
(حياة الامام الحسن بن علي، ج 2، ص 280 - سيرہ پيشوايان، ص 93 ـ 94.)
نتيجہ
معاویہ نے صلح کی پیشکش کی کیونکہ وہ کم خرچ پر "سستا اقتدار" حاصل کرنا چاہتا تھا اور امام حسن علیہ السلام نے صلح کی پیشکش قبول کی کیونکہ لوگ ـ بالخصوص نمایاں کمانڈر اور سپہ سالار اور سردار و عمائدین یعنی خواص امت ـ ایثار و قربانی کے جذبے سے عاری اور دنیا پرستی میں مگن تھے اور ہر قیمت پر اپنی دو روز کی زندگی کو اللہ کی راہ میں شہادت پر ترجیح دے رہے تھے۔ اور اسی دنیا پرستی کی بنا پر عہد شکنی اور خیانت کے مرتکب ہوچکے تھے، جس کی وجہ سے امام تنہا رہ گئے تھے، فوجی اقدام کے ذریعے مقصد کا حصول نا ممکن ہوچکا تھا چنانچہ امام (ع) نے صلح کی پیشکش قبول کی اور نظام امامت باقی رہا، تشیع بھی باقی رہا یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
امام حسن علیہ السلام کی صلح نہایت مفید اور پرثمر تھی اور ہم جانتے ہیں کہ جس مصالحت سے اہداف حاصل ہوجائیں وہ مصالحت اس جنگ سے بہتر ہے جس سے مقاصد کا حصول پردہ ابہام میں ہو یا پھر اس سے نقصان کے سوا کچھ بھی نہ مل رہا ہو۔
چنانچہ امام حسن علیہ السلام آپ (ع) کی فتح ہے۔
0 comments:
Post a Comment