راؤ منظر حیات
زندہ ملکوں کی فکری اساس میں سچ کا غلبہ ہوتا ہے۔ مبالغہ آرائی اورردِعمل کی شکارریاستیں آہستہ آہستہ بے توقیر ہو جاتی ہیں۔سفارتی آداب کے مطابق ملکوں کی داخلی اور خارجی کمزوریوں کوبھی ریشم کے غلاف میں لپیٹ کربیان کیا جاتاہے۔اکیسویں صدی کی سفارتکاری،ملکوں کے باہمی تعلقات،ان کی دوستی اورچپقلش انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ اس میں کوئی بھی چیزدوجمع دو،چارکے برابرنہیں ہوتی۔
داناقومیں بہت جلداپنے مستقبل کوبہترکرنے کے لیے عوام اوراداروں کو اتنامضبوط اورفعال کرلیتی ہیں کہ عوام خوشحالی کے ثمرسے مستفیدہونے لگتے ہیں۔لیڈرعوام میں امید اور خوشیاں تقسیم کرتے ہیں۔حقیقت پسندی سے کام لیں تو ہماراملک عظیم ترین طاقت بننے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔ قطعاً جذباتی بات عرض نہیں کررہا۔دنیاکے اَن گنت ملکوں کو دیکھنے اورپرکھنے کے بعد میرے ایمان کاحصہ ہے کہ یہ ملک عالمی طاقت بننے کی استطاعت رکھتاہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس اہلیت اوراستطاعت کوانتہائی سطحی طریقے سے روک دیاگیاہے۔ بین الاقوامی سطح پرپاکستانی تارکین وطن عزم اوردولت کانشان ہیں۔مگرملک میں جائز طریقے سے آگے بڑھنے کے تمام راستے بندکردیے گئے ہیں۔یہ سب کچھ وطن پرستی،مذہب اورغیرمعقول جذباتیت کو پروان چڑھاکرکیاجارہاہے۔
قائداعظم نے پاکستان بناتے ہوئے کبھی کسی ملک کو اپنادشمن قرارنہیں دیاتھا۔ان کی تقریرمیں خارجہ پالیسی کی بنیاد بتادی گئی تھی۔انگریزی فقرہ تھا”Peace within and peace without”یعنی پاکستان ایک ایساملک ہوگا جواندورنی اوربیرونی امن کاداعی ہوگا۔انھوں نے بمبئی میں ذاتی گھرکوبھی فروخت نہیں کیا۔خطوط موجودہیں جن میں خواہش ظاہرکی تھی کہ اپنے پرانے گھرمیں مسلسل آتے رہینگے۔سب سے پہلے انتہائی غیرمحسوس طریقے سے پاکستان میں ایک احساس پھیلایاگیاکہ ہمسایہ ممالک ہمیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔
زیادہ تمہیدکے بغیرگزارش کرونگاکہ اگرآج ہماراکوئی سیاسی رہنمایہ اعلان کردے کہ ہم ہندوستان اوردیگردشمن ممالک کے ساتھ ہرطریقے سے امن قائم کرناچاہتے ہیں۔ ان سے دشمنی کوبھرپوردوستی اور معاشی ترقی میں بدلنا چاہتے ہیں،توچنددنوں میں اس لیڈرکو وطن دشمن اوربیرونی طاقتوں کاایجنٹ ثابت کردیاجائیگا۔اس کی آل اولاد کو غدار بتایاجائیگا۔اگرکوئی وزیراعظم ہندوستان کا دورہ کرنے کی غلطی کرلے تواسکواس منظم طریقے سے ذلیل کیا جاتا ہے۔زیادہ دورمت جائیے۔ہندوستان کا وزیراعظم کس کے دورمیں پاکستان آیااوردوستی کاہاتھ بڑھایا۔دشمنی کی لکیراپنی جگہ مگر سچ سے کام لیجیے، کیاواجپائی کالاہوربس پر آناایک نئے آغازکی بنیادنہیں بن سکتاتھا۔مگراسکے بعد نواز شریف کے ساتھ جوکچھ ہوا،وہ ایک المناک داستان ہے۔
کیا موجودہ وزیراعظم کولاہورمیں ذاتی حیثیت بلانے سے ملکی مفادکوکوئی خطرہ لاحق ہوگیا۔طالبعلم کی دانست میں قطعاً نہیں مگراسے بھی ایک جرم بنادیاگیا۔یہ ملاقات طے شدہ تھی اورقطعاًاچانک نہیں تھی۔مگردوبارہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کوکٹہرے میں کھڑاکردیاگیا۔ضمناًعرض کرونگا کہ چند افراد کی وساطت سے سانپ اورسیڑھی کاوہ کھیل شروع کردیاگیاہے جس سے ہمیں حتمی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ قطعاًعرض نہیں کررہاکہ سیاسی قائدین غلطیاں نہیں کررہے یا وہ امانت اورخلوص کے پیکرہیں۔بالکل نہیں۔ وہ مکمل فرشتہ نہیں ہیںتووہ مکمل شیطان بھی نہیں ہیں۔ مگر یہاں کسی کوکام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اورنہ دی جارہی ہے۔آج کی صورت حال حددرجہ مشکل اوردھندلی ہے۔میں ایک انتہائی مشکل جانب توجہ مبذول کراتا ہوں۔ہرطرف ہماری غلطیوں پرایک بوسیدہ جملہ کہا جاتاہے کہ یہ ہنوداوریہودکی سازشیں ہیں۔اس جملے پربھی غورکی ضرورت ہے۔
کسی ریڑھی والے سے اسرائیل کے متعلق دریافت فرمائیے۔جواب سوفیصدیہی ہوگاکہ وہ ملک ہمارادشمن ہے۔اگرسوال کادائرہ بڑھادیں اوردوبارہ پوچھیں،کہ ہمارے ملک اوراسرائیل کے درمیان کشیدگی،دشمنی یا چپقلش کی وجہ کیاہے تواکثرلوگ دلیل پربات کرنے سے قاصررہینگے۔سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کیاہے۔ان کے مکینوں کی سائنسی،عسکری اورمالیاتی قوت کیاہے اور ہمارے ملک سے انتہائی دشواراورپیچیدہ تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ہمارے مفادمیں کیاتھااورہمیں کس طرف دھکیل دیاگیاہے۔ان نکات پرسیرحاصل بحث ہونی چاہیے۔ جذباتیت سے پاک اورملک کے مفادمیں۔کسی تعصب کے بغیر۔اسرائیل اورپاکستان کاباضابطہ رابطہ1950ء میں ہوا۔افغانستان میں سیکڑوں یہودی مقیم تھے۔یہ تمام اسرائیل جاناچاہتے تھے۔
لندن میں پاکستانی سفیرکو باقاعدہ درخواست کی گئی کہ ان تمام لوگوں کوبذریعہ پاکستان، ہندوستان جانے کی اجازت دی جائے۔وہاں سے ان لوگوں نے اپنے نئے وطن جاناتھا۔یہ بات چیت مکمل طور پر ناکام رہی۔ہمارے ہمسایہ اسلامی ملک ایران نے تمام یہودیوں کوپرمٹ دیے اورحفاظت سے اپنے ملک سے اسرائیل جانے کی اجازت دیدی۔اسرائیل اوراسکے ہمسایہ ممالک میں دوجنگیں ہوئیں۔1967ء میں “چھ دن کی لڑائی”اور1973ء میں…”Kippur War یا جنگ رمضان اور جنگ اکتوبر”…کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ہماراان جنگوں سے دوردورتک کوئی تعلق نہیں بنتاتھا۔مگراس وقت کے قائدین نے پاکستان کو اس میں الجھا دیا ۔ہمارے ایک پائلٹ سیف العظیم نے باقاعدہ اعتراف کیا،کہ اس نے”چھ دن کی لڑائی”میں چاراسرائیلی جنگی طیارے مارگرائے۔بات یہاں نہیں رکتی۔پاکستانی جہادی طبقے سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے پی ایل اومیں شمولیت شروع کردی۔
1982ء میں لبنان میں پچاس پاکستانی جنگی قیدی بنائے گئے جواسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک تھے۔بالکل اسی طرح پاکستان کے خلاف جذبات بھی اسرائیل میں پنپنے لگے۔اسرائیل ہمارے ایٹمی طاقت کے بننے کے سخت خلاف تھا۔1980ء کی دہائی میں اسرائیلی فضائیہ نے عراقی ایٹمی ری ایکٹرکوتباہ کردیا۔بالکل اسی طرز کا پروگرام “کہوٹہ”کے خلاف بھی بنایاگیا۔ایشین ایج (Asian Age) اور میکنئرز پیپر Mcnair’s Paper کے مطابق،اسرائیل کی ائیرفورس ہمارے ایٹمی پروگرام کوختم کرناچاہتی تھی۔اس کی ساری تیاری ہوچکی تھی۔مگرہمارے ہمسایہ ملکوں میں سے کسی نے اپنی زمین کواسرائیلی جہازوں کوتیل اورہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔U.S.Aائیریونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اسرائیلی فضائیہ کے پاس وہ قوت نہیں تھی،کہ وہ اپنے ملک سے اُڑکرپاکستان تک پہنچ پائے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورمیں ہمارے ریاستی اداروں اورموسادکے درمیان انتہائی قریبی تعلق رہا۔سوویٹ یونین کے خلاف،اسرائیلی فوج نے پاکستان سے مکمل تعاون کیااورافغان مجاہدین کوہتھیارفراہم کیے۔اس پورے تعاون کانامOperation Cyclone رکھاگیا۔
مندرجہ بالاحقائق میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پرجائیے۔آپکوتمام معلومات مل جائینگی۔ سائنس کی ترقی کی طرف آتاہوں۔یہودی سائنسدانوں اور سیاستدانوں کو1901ء سے 2015ء تک194نوبل پرائزمل چکے ہیں۔ان میں فزکس، کیمسٹری، ادب، طب، اقتصادیات اورامن،تمام شعبے شامل ہیں۔پوری دنیامیں یہودیوں کی مکمل تعدادایک کروڑچالیس لاکھ ہے۔ اسرائیل کی آبادی صرف اورصرف چونسٹھ لاکھ ہے۔ امریکا میں ان کی تعدادپچاس لاکھ
کے لگ بھگ ہے۔دنیاکی مجموعی طور پرپچاس فیصددولت ان لوگوں کے پاس ہے۔ اسرائیل کے تمام ہمسایہ مسلم ممالک کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہیں۔سعودی عرب تک اسرائیل سے بہترین اقتصادی اور خفیہ سفارتی تعلقات رکھتا ہے۔ترکی کے بھی یہودیوں کے اس ملک کے ساتھ بہت نزدیکی تعلقات ہیں۔ایران بھی اب امریکا سے تعاون کے بعد،اسرائیل کے خلاف،وہ سخت بیانات نہیں دیتاجوپہلے دیے جاتے تھے۔
ہمیں ہرسطح پریقین دلادیاگیاہے کہ پوری دنیا ہماری دشمن ہے۔امریکا سے لے کرہرہمسایہ ملک ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل سے ہماری دشمنی ضرب المثل ہے۔سنجیدگی سے سوچیے کیا ہم اتنی اقتصادی اور فوجی طاقت کے مالک ہیں کہ تمام دنیاسے لڑیں اور انھیں شکست دے سکیں۔ دو چار ملکوں سے اقتصادی تعاون کے علاوہ،اس وقت پوری دنیا میں ہمارے ملک کوکوئی بھی سنجیدگی سے لینے کے لیے تیارنہیں ہے۔ ہم بلاوجہ دشمن بنانے کے اتنے ماہرہیں کہ دراصل ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہی نہیںرہی۔اندورنی کمزوریوں پرقابونہ پانے کی وجوہات ہم بیرونی محرکات میں تلاش کرتے ہیں۔دکھ سے عرض کررہاہوں کہ قائداعظم کے فرمودات کے بالکل برعکس ہمیں”سیکیورٹی اسٹیٹ” بنا دیا گیا ہے۔ہماراجوبھی سیاستدان کشیدگی کوکم کرنے کی کوشش یاہمت کرتاہے،اسے تماشہ اورنشان عبرت بنانے کی بھرپورکوشش کی جاتی ہے۔
اس نازک مرحلہ پرہمیں دنیاکی سب سے طاقتور قوم اور ملک یعنی اسرائیل سے اپنے قومی مفادکے تحت کیسے تعلق رکھنے چاہیے،اس پربات یابحث کرنامکمل طور پر ناممکن ہے۔ہم تمام یہود وہنودپرکیسے فتح حاصل کرینگے، میرے پاس اپنے ہی اس مشکل سوال کاکوئی جواب نہیں۔جواب آپکی فہم اورادراک پرچھوڑتاہوں!
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 comments:
Post a Comment