امام حسن علیہ السلام اور آپ کے چھوٹے بھائی امام حسین علیہ السلام، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے بطن مبارک سے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارھا فرمایا تھا کہ حسن و حسین علیھما السلام میرے بیٹے ھیں اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام اپنے تمام بیٹوں سے فرمایا کرتے تھے: تم میرے بیٹے ھو اور حسن و حسین علیھما السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ھیں۔ (۷۲)
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت ۳ھ مدینہ میں ھوئی تھی۔ (۷۳) انھوں نے سات سال اور کچھ مھینے تک اپنے نانا (رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی وفات سے تین یا چھ مھینے پھلے ھوئی، آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنے والد گرامی کی شھادت کے بعد خدا کے حکم اور حضرت علی علیہ السلام کی وصیت کے مطابق امامت کے درجے پر فائز ھوئے اور ساتھ ساتھ ظاھری خلافت کے عھدیدار بھی بنے۔ تقریباً چھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رھے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رھے۔ اسی مدت میں معاویہ جو حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے خاندان کا سخت ترین دشمن تھا اور کئی سال سے خلافت کی حرص و خواھش میں (سب سے پھلے خلیفہ سوم کے خون کے بدلے کے بھانے اور آخر کار خلافت کا دعویدار ھونے کی وجہ سے) اس نے کئی جنگیں بھی کی تھیں اور کئی بار عراق پر چڑھائی کی تھی جو اس زمانے میں امام حسن علیہ السلام کا دار الخلافہ تھا، اس طرح آپ سے بھی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ دوسری طرف اس نے امام حسن(ع) کے فوجی جرنیلوں اور سپاھیوں کو بھت زیادہ پیسہ اور مستقبل کے جھوٹے وعدے دے کر اپنے ساتھ ملالیا تھا۔ اس طرح اس نے ان کو امام حسن(ع) کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرلیا تھا۔(۳)
آخر کار امام حسن علیہ السلام صلح پر مجبور ھوکر اس شرط پر ظاھری خلافت سے دست بردار ھو گئے کہ معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت دوبارہ امام حسن علیہ السلام کو واپس مل جائے گی اور اس کے ساتھ ھی ان کے خاندان اور طرفداروں کے لئے کسی قسم کی مشکلات پیش نہ آئیں گی۔(۴)
معاویہ نے اسلامی خلافت پر قبضہ کرلیا اور عراق میں داخل ھو کر ایک عام سرکاری تقریر میں صلح کے شرائط کو منسوخ کردیا۔ (۵) اس نے ھر ممکن ذریعے سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اھل بیت(ع) اور ان کے طرفداروں پر سختیاں شروع کردیں۔
امام حسن علیہ السلام نے اپنی امامت کے تمام عرصے میں جو کہ دس سال کا تھا، بھت ھی سیاسی گھٹن اور سختی میں زندگی گزاری۔ ان کے لئے یا ان کے خاندان حتی کہ ان کے گھر کے اندر بھی ان کے لئے جائے امن نہ تھی۔ آخر کار ۵۰ھ میں معاویہ کے اکسانے پر آپ کی بیوی (جعدہ) نے آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا۔ (۶)
امام حسن علیہ السلام انسانی کمالات میں اپنے والد گرامی کا کامل نمونہ اور اپنے نانا بزرگوار کی نشانی تھے۔ جب تک پیغمبر اکرمب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ رھے آپ اور آپ کے بھائی (امام حسین علیہ السلام) ھمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس رھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی کبھی ان کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا کرتے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بھت زیادہ احادیث بیان کی ھیں کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا (۷)
”یہ دونوں میرے بیٹے امام ھیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔“ (کنایہ ھے ظاھری خلافت کے عھدیدار ھونے یا نہ ھونے کا)۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آپ کے والد بزرگوار کی خلافت کے بعد آپ کی جانشینی کے بارے میں بھی بھت زیادہ احادیث موجود ھیں
۔( ارشاد مفید )
رسول خدا(ص) فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ھوں تو بھی اس کو دوست رکھ" ۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ھیں۔"
ایک دن امام حسن علیہ السلام اپنے نانا کی پشت پر سوار تھے ایک شخص نے کھا: واہ کیا خوب سواری ھے!
پیغمبر(ص) نے فرمایا: بلکہ کیا خوب سوار ھیں!
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بھت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ھر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے سارے لوگ بھی آپ سے بے انتھا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار اپنی ساری دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردی تھی۔ تین بار اپنی جائداد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لئے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔
امام حسن مجتبیٰ (ع)نھایت شجاع اور بھادر بھی تھے۔ اپنے بابا امام علی علیہ السلام کے ساتھ جب آپ جنگ کرنے جاتے تھے تو فوج میں آگے ھی آگے رھتے تھے۔ جنگ جمل اور صفین میں آپ نے بھت خطرناک جنگیں لڑی تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی شھادت کے بعد آپ نے صرف چہ مھینے حکومت کی تھی۔
آخر کار ۵۰ھء میں زھر کے ذریعے آپ کی شھادت ھو گئی جو آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث نے معاویہ کے حکم سے آپ کو دیا تھا۔
آپ کا مزار اقدس، جنت البقیع میں تین دیگر اماموں کی قبروں کے ساتھ ھے۔ آپ کی والدۂ گرامی جناب فاطمہ زھرا(س) کی قبر اطھر بھی یھیں ھے۔
حوالے
۷۲۔مناقب ابن شہر آشوب ج/۱ ص /۲۱ ، ذخائر العقبیٰ ص/ ۶۷۔۱۲۱
۷۳۔مناقب ابن شہر آشوب ج/۴ ص/۲۸، دلائل الامامت تالیف محمد بن جریر طبری طبع نجف ۱۳۶۹ھء ص/۶۰ ، فصول المہمہ ص /۱۳۳ ، تذکرة الخواص ص/۱۹۳، تاریخ یعقوبی طبع نجف ۱۳۱۴ھء ج/ ۲ ص /۲۰۴ ، اصول کافی ج/ ۱ ص ۴۶۱
۷۴۔ارشاد مفید ص /۱۷۲، مناقب ابن شہر آشوب ج/۴ ص/۳۳ ، فصول المہمہ ص /۱۴۴
۷۵۔ ارشاد مفید ص /۱۷۲، مناقب ابن شہر آشوب ج/۴ ص/۳۳ ، الامامت و السیاست تالیف عبد اللہ بن مسلم بن ققیبر ج/۱ ص۱۶۳ ، فصول المہمہ ص /۱۴۵ ، تذکرة الخواص / ۱۹۷
۷۶۔ارشاد مفید ص/۱۷۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ج/ ۴ ص /۳۵ ،الامامت و السیاست ج/ ۱ ص ۱۶۴
۷۷۔ارشاد مفید ص/۱۷۳ ، مناقب ابن شہر آشوب ج/ ۴ ص /۳۵ ، فصول المہمہ ص/ ۱۴۶، تذکرة الخواص ص /۲۱۱
۷۸۔ارشاد مفید ص/ ۱۸۱ ، اثبات الھداة ج/ ۵ ص /۱۲۹ ۔
0 comments:
Post a Comment