صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پسند کی شادی پر ایک لڑکی کو زندہ جلائے جانے کا معاملہ پاکستان کے ایوانِ بالا میں اٹھایا گیا ہے۔
سینیٹ میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اور جلائی جانے والی خواتین سے متعلق قانون پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا جائے۔
جمعرات کو پاکستان میں حال ہی میں خواتین کو جلائے جانے کے واقعات پر سینیٹ کے اجلاس میں بحث کی گئی۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ایسی قانون سازی کی جائے جس میں نہ تو ملزموں کی ضمانت ہو سکے اور نہ ہی فریقین کے درمیان کسی معافی نامے کو قبول کیا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر عوام دیکھیں گے کہ حال ہی میں ایبٹ آباد، مری اور لاہور میں خواتین کو زندہ جلانے کے مرتکب افراد اگلے چھ ماہ میں جیل سے باہر ہوں گے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ غیرت کے نام پر سب سے زیادہ خواتین کو جلانے کے واقعات آبادی کے لحاظ سے ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں ہو رہے ہیں، جن کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ’ہم لوگ پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتو ں کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مل کر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا سدباب کیا جا سکے۔
سینیٹ کے چیئرمین نے اس معاملے کو انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
دوسری جانب لاہور میں زینت بی بی کی ہلاکت سے متعلق ابتدائی رپورٹ مقامی پولیس کو موصول ہو گئی ہے جس کے مطابق مقتولہ کی موت جلائے جانے کی وجہ سے ہوئی ہے جبکہ اس کے گلے پر بھی نشانات ہیں۔
مقامی پولیس کے مطابق مقتولہ کی سانس کی نالی میں ابھی تک دھواں موجود تھا، جب کہ اس کے جسم کا 95 فیصد حصہ جل چکا تھا۔
پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ مقتولہ کی والدہ پروین بی بی اور اس کے ایک داماد مظفر کے خلاف درج کر لیا ہے تاہم ابھی تک مظفر کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
0 comments:
Post a Comment