اصول دین و مذہب میں عقیدہ امامت ہر شخص کے لئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح توحید، عدل، نبوت اور قیامت یعنی اگر کوئی شخص اللہ کی وحدانیت و عدالت کا قائل ہے تو اس کے لئے عقیدہ امامت پر ایمان تکھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے
اس لئے اگرہم ذات باری تعالی، کو عادل تسلیم کرتے ہیں تو اس کا لازمی و منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی جانب سے ہر زمانے میں کسی نہ کسی عہدہ دار ہدایت وراہنمائی کا وجود بھی ضروری ماننا پڑے گا ـاگر چہ وہ ظاہر نہ ہو اور پردہ غیب میں رہ کر ہی ہدایت کے کام کو آگے بڑھارہا ہو ـ
یہ سلسلہ ہدایت جو بعد ختم نبوت بصورت امامت شروع ہوا اس کی ابتدا جیسا کہ ظاہر ہے مقام ختم نبوت سے ہوتی ہے اور انتہا اس مقام پر ہوتی ہے جہاں ذہن انسانی کی رسائی کے لئے نبوت جیسی کوئی علامت بھی موجود نہیں یہی سبب ہے کہ اس منصب جلیل کے ان حضرات کو تفویض کرنے میں خالق کا ئنات اس سے جتنے امتحان لے سکتا تھا اس نے لئے اور جتنی بلاؤں میں ان کو گرفتار لے سکتا تھا کیا، اور جب ان حضرات نے تمام مصیبتوں کو اور آزمائشوں کو صبر و شکر خدا کے ساتھ طے کیا تب خدائے بزرگ و برتر نے یہ منزلت اور یہ عہدہ انھیں عطا فرمایاـ
جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (ص) ! کیا زمانہ غیبت میں شیعوں کو ان کے وجود سے فائدہ پہنچے گا ؟ " فقال ای واللہ و الذی بعثنی بالنبوة انھم لیضیئون بنورہ و ینتفعوں بولایتة فی غیبة کانتفاع الناس بالشمس وان علاھا سحاب " رسول (ص) نے فرمایا کہ ہاں ! قسم خدا کی جس نے مجھے نبی بناکر بھیجا ہے ان کے شیعہ ان کے نور سے اسی طرح روشنی حاصل کریں گے اور ان کی ولایت سے فائدہ اٹھائیں گے جس طرح لوگ آفتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر چہ وہ بادلوں میں چھپا ہوا ہو ـ
اس طرح یہ آیت جہاں کلی طور پر مسئلہ امارت و قیادت اور امامت و رہبری سے براہ راست تعلق رکھتی ہے وہیں ضمنا التزاماً حضرت ولی عصر (ع) کی ذات با برکت سے بھی ربط رکھتی ہے ـ اسی طرح وہ جتنی آیتیں جو مسئلہ امامت ورہبر پر روشنی ڈالتی ہیں ان کی روشنی میں امام عصر (ع) کی معرفت کا سفر بھی آسانی سے طے کیا جاسکتا ہے ان آیتوں کی تفصیل کلامی کتب کی بحث امامت میں موجود ہے ـ قطع نظر ان آیتوں کے قرآن حکیم کی متعدد آیتیں ایسی بھی ہیں جو بطور خاص صرف امام عصر (ص) ہی کی ذات گرامی پر روشنی ڈالتی ہیں یا کسی نہ کسی جہت سے آپ کے وجود، آپ کے قیام و ظہور اور آپ کی حیات و ہدایت کے کوائف سے پردہ کشی کرتی ہیں ـ
0 comments:
Post a Comment