شوال 1345ھ بمطابق 1926ء تاریخ اسلام کا سیاہ ترین دن ہے، جب سرزمین حجاز کے غاصب حکمران عبدالعزیز بن سعود نے جنت البقیع (مدینہ منورہ) اور جنت المعلی (مکہ معظمہ) میں اجداد رسول، اولاد رسول ، خانوادہ رسول، امہاة المومنین ، اصحاب کرام اور بزرگان دین کے مزارات کو منہدم کرادیا، جنت البقیع اور جنت المعلیٰ صرف قبرستان نہیں بلکہ محسن اسلام کی عظیم یادگاروں کا مجموعہ تھے۔
سعودی حکومت کے بانی ابن سعود کی اس اسلام سوز حرکت جس پر مسلمانان عالم آج تک خون کے آنسو رو رہے ہیں اور ہر سال 8شوال کو ”یوم انہدام جنت البقیع“ منا کر اس المناک سانحہ کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے یہ اسی احتجاج کا نتیجہ ہے کہ جس کے باعث روضہ رسول مقبول نجدیوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ چلا آرہا ہے ورنہ اسے بھی سعودی حکومت بیدردی اور سفاکی کے ساتھ بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کرا کے زمین بوس کر دیتی۔ نفس کے غلام استعمار کے ایجنٹ اور سرزمین سعودیہ کو سرزمین اسلام کی بجائے اپنی ذاتی ملکیت سمجھنے والے غاصب سعودی حکمران محسنین اسلام کی نشانیوں کو ویران و تاراج کرکے اپنے محلات میں سونے چاندی کے ظروف و فانوس سے تزئین و آرائش کئے ہوئے ہیں۔
سربفلک عیش کدوں میں ضمر و دولت کی فراوانی ان سعودی شہزادوں کے لئے ہے ؟ ہم حیران ہیں کہ اسلامی حکومتیں اس نجدی حکومت سے خائف کیوں ہیں ؟ احتجاج کیوں نہیں کرتیں؟ دراصل اس روح فرسا واقعہ میں ایک گھناﺅنی سازش ہے۔ اس بہانے سے نہ صرف اسلاف کی حرمت پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے بلکہ ان مدفون عظیم المرتبت شخصیتوں سے ناطہ توڑنے اور منہ موڑنے کی عملاً منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ آج تجرباتی طور پر ابتداء میں جنت البقیع کو تختہ مشق بنایا گیا ہے ۔ پھر مکہ معظمہ کی عظیم قبلہ گاہ اور نجف و کربلا کے مقدس مقامات جو مسلمانوں کی توجہ کا مرکز ہیں، ظلم کی آندھیوں میں اڑا دینے کی جسارت کی جاسکتی ہے۔
آمریت کے ان شہنشاہوں اور انسانیت کے ان مسخروں سے ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر تمہیں عیاشی سے فرصت ملے تو ہماری اس بات کا جواب دو کہ یہ لاکھوں حجاج کرام جو ہر سال سعودی عرب میں جب آتے ہیں تو ان میں سے کتنے ہیں جو تمہاری آمریت سے مرعوب ہو کر تمہاری قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اب ذرا جنت البقیع میں جاکے دیکھ لو کہ جہاں باوجود تمہارے پہرے داروں کے، اتنی رکاوٹوں کے، محمد عربی کے پروانے اور آل محمد ؑ کے یہ دیوانے ، کس طرح بیتاب نظر آتے ہیں اور کس وجدانی کیفیت میں ان قبروں پہ اپنے آنسوﺅں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔ گویا تم نے اپنی حیثیت بھی دیکھ لی اور جن کے نشان کو تم نے مٹانا چاہا ، ان کی شان بھی دیکھ لی۔ اب بتاﺅ! یہ حکومت ان کی ہے یا تمہاری ہے؟ یہ سلطنت ان کی ہے یا تمہاری ہے؟ یہ جاہ و جلال ان کا ہے یا تمہارا ہے؟
سال میں کئی مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے تو ہماری حکومت کے بہت سبت و کشاد سے لے کر مرکزی و صوبائی وڈیروں تک ایم این اے و ایم پی اے کے لاﺅ لشکر جو عوام کے خرچہ پر سعودی عرب کے محلات کا طواف کرتے ہیں مگر کبھی بھی انہیں توفیق نہیں ہوئی کہ امت مسلمہ کا یہ احتجاج سعودی ایوانوں تک پہنچائیں۔ افسوس۔
آج اس سانحہ کو79سال گزر چکے ہیں ہر سال دنیا بھر کے خوش عقیدہ و بیدار ضمیر رکھنے والے مسلمان اپنی اسلام دوستی کا اعادہ کرتے ہوئے سعودی حکمرانوں کی توجہ مسمار و برباد کردہ مزارات مقدسہ کی تعمیر نو کی جانب مبذول کراتے ہیں لیکن بے دین سعودی حکمرانوں نے کبھی بھی اس اجتماعی روحانی کرب کو محسوس نہیں کیا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے مسلمان اس عظیم سانحہ کو فراموش کرتے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی فراموشی یا عدم توجہی اس بات کا باعث ہے کہ آج عراق و شام میں انبیاء علیہم السلام کے روزے ایسے گرائے جا رہے ہیں جیسے ریت کے ڈھیر کو زمین کے برابر کر دیا جاتا ہے اور کسی کو ٹس سے مس نہیں ہوتی انبیائے ماسبق صرف شیعوں کے نہیں صرف مسلمانوں کے نہیں تمام بنی نوع انسانوں کے ہیں لیکن یہ درندہ صرف قوم جسے استعماری طاقتوں نے انہیں کاموں کے لیے وجود دیا ہے اسلامی اور الہی مقدسات کو ملیا میٹ کئے جا رہے ہیں! افسوس اور صد افسوس! اگر کل جنت البقیع کے انہدام کے خلاف ٹھوس اقدام کیا ہوتا اور ان ہادیان برحق اور اولاد رسول اعظم(ص) کی قبور مطھرہ پر دوبارہ روضہ تعمیر کروایا ہوتا تو آج یہ دیکھنے کو نہ ملتا جو عراق و شام میں ہو رہا ہے۔
8شوال کو ملت شیعہ کا ہر فرد سوگوار ہوتا ہے یہ دن ہمیں ہر سال سعودی حکمرانوں کے ظلم کی یاد دلاتا ہے ۔ لیکن اس دن کو اس طرح نہیں منایا جاتا جیسے اس کے منانے کا حق ہے۔ عام مسلمانوں سے ہٹ کر خود ملت جعفریہ بھی اس عظیم سانحہ کو فراموش کرتی جارہی ہے چند افراد کے احتجاج سے ملت اپنی اجتماعی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 8شوال کو ملت قومی دن قرار دے اور باضمیر برادران اہلسنت کے ساتھ مل کر اس عظیم سانحہ پر ایسا بھرپور احتجاج کرے کہ نجدی حکمران جنت البقیع اور جنت المعلی ٰ کے مزارات دوبارہ تعمیر کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ آج مسلمانوں کی بے عملی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکمران انہیں جب چاہتے ہیں اسلام کا مقدس نام لے کر اسلام اور اسلامی شعائر کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔
0 comments:
Post a Comment